اشاعت = اپریل 2008 یسوع:کامل انسان اور کامل خُدا
اُنسیویں صدی کے آخر میں جرمنی میں ایک آزاد خیال علم الہیات کے لوگوں کی ایک جماعت پیدا ہوئی ۔اُنھیں بہت بڑے نکتہ چیں گروپ کا نام دیا گیا ۔ اُن کی منادی کا مقصد تھا کہ سچے تواریخی یسوع کو خُدا کے انسانی شکل میں ظاہر ہونے سے علیحدہ کیا جائے جس کی کلیسیاء دوہزار سال سے پرستش وعبادت کررہی ہے۔اِن متحرف لوگوں کا اثر موجودہ زمانے پر تیزی سے بڑھ رہا ہے ،جیسے کہ وہ لوگوں کو(تہہ در تہہ) یا آہستہ آہستہ ”تواریخی یسوع“ سے محروم کررہے ہیں ۔کہ”وہ یسوع مسیح کی“ الوہیت کو ایک افسانہ یا داستان تصور کرتے ہیں ۔اور اُس کے معجزانہ کاموں کو ایک مشہور کہانی کے طور پر سمجھتے ہیں جو کہ باپ دادا سے سُنتے آرہے ہیں ۔ اُس کے حالات زندگی ، اُس کی تعلیمات اور اُس کے کاموں میں شک کرتے ہیں ۔ مزید جانچ پڑتال کے بعد یہ نکتہ چیں تاریخ دانوں اور علم زمانہ قدیم کے ماہرین کے ذریعہ سے کشادہ شہادت بیان کرتے ہیں ۔کہ انجیل مقدس کے حساب کتاب صحیح اور درست ریکارڈ ہیں ، لیکن یہ آدمی حقائق سے بے دھڑک ہیں ۔ یہاں تک کہ آج (Skeptics) فرقہ کے عالم لگاتار کلیسیاء میں تواریخی یسوع ،والی غلط تعلیم کو پھیلارہے ہیں۔
نکتہ چینوں کا یہ دعویٰ کوئی نیا نہیں ہے،بلکہ پہلی اور دوسری صدی کے ابتدائی مسیحیوں کا بھی یہودی ربیوں اور یونانی سکالروں اور فلاسفروں کے ہاتھوں تمسخر اُڑایا جاتا تھا۔
علم المسیح کی تعریف یسوع مسیح کے بارے علم الہیات ہے۔جو کہ خُدا کا بیٹا تثلیث کا دوسرے اقنوم سے پہلی پانچ صدیوں تک
کلیسیاءیسوع مسیح کی فطرت پر بحث کرتی رہی۔حقیقی مسیحت یہ تعلیم دیتی ہے کہ یسوع مسیح کاممل انسان اور کامل خُدا ہے اس باب میں ہم یسوع مسیح کے متعلق بہت سی شہادتوں کے بارے میں دیکھیں گے کہ یسوع مسیح نے انجیلی اعدادوشمار کے مطابق زندگی بسر کی اور اُسی کے مطابق وہ موئے۔انجیلی ریکارڈ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اُس نے انسانی شکل اختیار کی اور ایک انسان کے طور پر اُس نے تجسم لیا۔وہ مکمل طور پر ایک الہی شخصیت تھی۔
تاریخ ثابت کرتی ہے کہ انسان یسوع حقیقی طور پر اِس زمین پر رہے۔دُنیا کے تمام بڑے مذاہب یسوع کو ایک بہت بڑی مذہبی شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں
۔یہودی،مسیحی،مسلمان،ہندو،بدھ مت اور بہت سے چھوٹے بڑے فرقے بھی، کہ کوئی دوسرا نجات دہندہ نہیں انسانوں میں جس نے خُدا ہونے کا دعویٰ کیا،دوسرے مذاہب کے آدمی بھی خُدا کی مانند بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔صرف مسیحیت کا خدا ہی آدمی بنا تاکہ تمام انسانوں کے گناہوں کا کفارہ دے سکے۔دُنیا کے مذہب کے کسی بانی نے کبھی ایک حقیقی خدا ہونے کا دعویٰ نہیںکیا نہ ہی موسیٰ نے نہ محمد نے اور نہ ہی مہاتما بُدھ نے۔مشرقی مذاہب میں ہم دیکھتے ہیں کہ سلاطین دیوتا جس نے خُدائی کا دعویٰ کیا۔لیکن یہاں اسکے مطلب میں فرق ہے۔
وہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہر شخص الوہیت کا ایک پہلو ہے۔مگر یہ بت پرستی ہے ۔ وہ کئی دیوتاﺅں کے پجاری ہیں وہ یہ دعویٰ نہیں
کررہے کہ کوئی ایک اکیلا آدمی ایک حقیقی خُدا ہے ۔ اگر آپ ایک حقیقی تواریخی شخص کو دیکھ رہے ہیں جس نے ”مسیح“ ہونے کا دعویٰ کیا ۔اور جس نے حقیقی خُدا کے ساتھ ایک ہونے کا دعویٰ کیا ۔ تو یسوع مسیح کے علاوہ کسی پر نگاہ نہ کریں۔
یسوع اور دوسرے دیوتاﺅں میں فرق یہ ہے کہ یسوع ایک حقیقی شخص تھا ۔جس نے پہلی صدی میں اس دنیا میں زندگی بسر کی جب کہ دوسرے صرف انسانوی کردار تھے یا کہ وہ اُن مشہور کہانیوں کی شکل صورت کے دیوتاﺅں کا عکس تھے ۔ اور بت پرست اِس بات کو بخوبی جانتے تھے ۔بہت سے پرانے مذاہب سمجھتے تھے کہ ان کے افسانے حقیقی،تاریخی سچے نہیں ہیں ، لیکن کہانیوں کا ایک کردار پر بنایا جاتا تھا۔
یہ انسانوی کردار جیسا کہ نورس گاڑبیلڈر جو کہ ایک درخت پر لٹکایا گیا اور تیسرے دن بعد وہ موت سے جی اُٹھا۔یونانی ہیرو”ہرکولیس“جونیچے پاتال میں اُتر گیا۔
”ورشینا“ہندو دیوتا جو کہ مصلوب ہوا۔”سیلٹک ہیرو“ جس پر شہنشاہ آرتھر کی شخصیت کی بنیاد تھی ۔ وغیرہ۔ مسیح کے مشابہ ہیں۔امریکہ کے پرانے باشندے اور چین کا ثقافت کے لوگوں کی کہانیاں اور داستانیں جو کہ بائبل کے مشابہ ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ساری عالمگیر انسانیت ایک نجات دہندہ کے آنے کا نتظار کررہی ہے ۔ ایک ”خُدائے آدم“جو ہمیں ہماری گری ہوئی حالت سے نکالے اور خُدا کے اُس غضب کو ٹھنڈا کر لے جو کہ ہمارے،خلاف تھا۔ بہت سے سماجوں نے مسیح سے مشابہ بہت سے افسانوی بُت بنالتے ہیں۔ساری دُنیا بائبل کو ایک الہی کلام کے طور پر قبول کرتی ہے۔دُنیا کا ہر مذہب بائبل کو قبول کرتا ہے (یا کم از کم اس کچھ حصے کو) کہ یہ ایک الہی الہلامی کتاب ہے۔
پولوس رسول نے رومیوں1:20 میں اپنی اس منادی اور تحریر کو اس حقیقت کا حوالہ بنایا ہے۔علم الہیات میں اس واقعہ کو”قدرتی مکاشفہ“ کے طور پر جاناجاتا ہے۔”کافرانہ ثقافت جس میں بائبل نہیں ہے۔انھوں نے کبھی اپنی افسانوی کہانیوں میں کچھ ایسے سچ پیش کئے ہیں جو کہ مکاشافاتی ہیں ۔تاہم صرف بائبل میں ہی یسوع کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔اور اسی میں ہم صحیح تاریخی ریکارڈ ڈھونڈ سکتے ہیں ۔
لوقا 2:1 میں ہم دیکھتے ہیں ۔کہ جب کورنیس شام کا گورنر تھا تو یسوع اُن دنوںمیں میں پیدا ہوا۔اور جب قیصر اگوستس بادشاہ تھا۔لوقا3:1 میں ہمیں یسوع کی خدمت کے شروع کے سال کا صحیح ریکارڈ دیا گیا ہے ۔ تریس قیصر کی حکومت کے پندرویں برس جب پنطیس پلاطس یہودیہ کا حاکم تھا ۔ اور ہیرودیس گلیل کا اور اُس کا بھائی فلپس اتوریہ کا اور ترخوتس کا اور لسانیاس ابلسینے کا حاکم تھا ۔ پہلی صدی میں یہ تمام ملک یہودیہ کے اردگرد تھے ۔ اور یہ تمام شخصیات اور مقامات حقیقت میں یہاں موجود تھیں،جو کہ تاریخ کے ریکارڈ سے بھی ثابت ہوچکی ہیں ۔ہمیں ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یوسف اور مریم بیت الحم میں مردم شماری میں اپنے نام لکھوانے کےلئے گئے۔جب اگوستس کے عہد حکومت میں ساری دُنیا سے ذریعوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔لوقا3:23 میں یسوع کا صحیح نسب نامہ دیا گیا ہے۔تمام یہودی اُن کے حسب نسب سے مکمل طور پر واقف تھے ۔ چرچ کے فادر نے کہا کہ لوقا کی انجیل میں مریم کا نسب نامہ دیا گیا ہے ۔
جبکہ متی کی انجیل میں یوسف کا نسب شجرہ پیش کیا گیا ہے،یوسف اور مریم دونوں ہی بادشاہ داﺅد کی نسل سے تھے۔(یہ کہ ایک تواریخی اعداد ہے )ہمارے پاس ایک تاریخی اعدادوشمار موجود ہے جو کہ یسوع کی موت کے وقت سے کیا گیا ہے اور کلیسیاءکی پیدائش کے وقت سے شمار کیا گیا ہے۔
یسوع مسیح کی اس دنیا میں موجودگی کے ہمارے پاس اُس شاگرد بہترین گواہ موجود ہیں ۔ جنہوں نے نئے عہد نامہ کی کچھ کتابیں بھی تحریر کیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسیح کے متعلق بت پرستوں کے پاس بھی حوالہ جات موجود ہیں ۔ غیر مذاہب کی کچھ تحریریں مقابلتاً اس کی معلوم ہوتا ہے کہ اور بھی بہت سے لوگ یسوع کی حقیقت سے واقف تھے۔اس کی زندگی موت اور مردوں میں سے جی اٹھنا ہمیں مسیحی بناتا ہے ۔
مندرجہ ذیل تاریخ دانوں نے جو کہ غیر مسیحی دُنیا سے تعلق رکھتے ہیں یسوع کے متعلق بیان کیا ہے ۔
1 ۔شہنشاہ ٹارجن اور پلنی کے درمیان خط و کتابت سن(98-117)نئے عہد نامہ کی تاریخ کے متعلق اس کی مضبوط تصدیق کرتی ہے جس میں مسیحیوں کی ایذارسانی جو کہ نےرو بادشاہ کے عہد میں انھوں نے اتھائی بیان کیاگیا ہے ۔
2 ۔ططس اپنی تواریخی سرگزشت میں (C115 A D ) مسیح کی مصلوبیت کے بارے میں بیان کرتا ہے۔جو کہ پنطوس پلاطوس کے عہد حکومت میں ہوئی ۔ اور نیرو بادشاہ کی ایذارسانی کی واضح تفصیل بیان کرتا ہے جسکا نئے عہد نامہ میں بھی اشارہ ملتا ہے ۔
3۔فلبوس جوزف ایک یہودی مورخ پہلی صدی عیسوی میں یسوع اور اُس کے بھائی یقوب اور یوحنا بپتسمہ دینے والے کا بیان کرتا ہے ۔ اگرچہ کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں ۔یوسیفس کی تحریر بعد میں آنے والے مسیحی ربیوں کی نقل ہے ۔ جبکہ اُس کے دعوے کی کوئی حقیقی شہادت موجود نہیں ہے ۔ حقیقت میں بہت سے سکالر یوسیفس کی یسوع کے متعلق دو تحریروں جن میں نا تو حقیقی ہے یا اُس کا کچھ حصہ میں نیا مضمون شامل کرکے پیش کیا گیا ہے اصلی ہے ۔ وہ اس بات سے متفق ہیں یہ قیاس کہ یہ ایک جعلسازی ہے جو کہ بہت قلیل تعداد میں سکالروں نے بلا توقف پیش کیا اور کہا کہ صرف تصور کی پیداوار ہے ۔یوسیفس کی تحریروں کوئی اور مضمون نہیں ہے جس پر(Skeptics) نے اعتراض کیا یہ یہی ایک ہے ۔
درحقیقت یہ ایک اچھی شہادت ہے جو کہیوسیفس نے یسوع مسیح کی حقیقی زندگی کے بارے میں اپنی تحریروں میں بیان کی ہے ۔ کیونکہ نیا عہد نامہ یوسیفس کی تحریروں کی بہت ہی کم تفصیل پیش کرتا ہے جو اس نے اپنی تواریخ میں بیان کی ہے ۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یوسیفس نے اپنی تاریخ نئے عہد نامہ کی تکمیل کے بعد لکھی ہے ۔پس یوسیفس عہد نامہ کی حقیقت کی تصدیق کرتا ہے ۔ دونوں وسائل ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں ۔قانوم کی ایک عدالت میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دونوں دستاویزات ہی پائےدار ہیں ۔
ہم غیر مسیحی قلم کاروں کے ذریعے کوئی اور ریفرنس جانتے ۔مگر پہلی صدی مسیحی اور دوسری صدی کے آغاز مسیحی قلم کاروں کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہزاروں نسخے موجود ہیں ۔ مسیحیت کوئی مذہب نہیں ہے جسکااُس کے آغاز میں مہور قصہ کہانیوں کا عکس نظر آتا ہے لیکن اسکی مکمل طور پر تاریخی طور پر جڑیں موجود ہیں اور اس کے ہزاروں دستاوےزی ثبوت موجود ہیں۔
دو پہلی صدی کے دیگر مصنفین جنہوں نے یسوع کو پیش ۔ ان میں برنباس(AD.70 ) ہرماس(AD.95 ) کیا ان میں پولےکارب انطاکس کے بشب نے نئے عہد نامہ کی کتابوں سے16اقتباس پیش کئے۔ایرینس دوسری صدی کے بشب نے عہد نامہ کی کتب سے1819اقتباس پیش کئے ۔ٹر ٹولین(AD 160.220)نئے عہد نامہ کے7258مرتبہ رےفرنس پیش کرتا ہے ۔ پس ہمارے پاس پہلی اور دوسری صدی کے مصنفین جنہوں نے یسوع اور مسیحت کے بارے بڑی وسعت سے تحریر کیا۔
حال ہی ایک جدید ریسرچ پر مبنی کتاب جسکا نام ہے (The Rise Of Christianity) جسکا مصنف راڈنی سٹارک ہے۔جس نے اس کتاب میں پہلی صدی چار صدیوں کے کلیسیاءکی تعمیر میں عام طور تبدیل شدہ یہودی تھے ۔سن100 ءصدی عیسوی تک مسیحی تحریک مقابلتاً بہت تھوڑی تھی ۔چرچ کے تاریخ دانوں کے انداز کے مطابق تقرےباً تین درجن شہری تھے۔اور پوری دنیا میں 30,000سے کم مسیحی تھے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ پہلی عیسوی تک غیر مسیحی مورخ زیادہ تعداد میں موجود نہیں تھے۔جو مسیحیوں کا نوٹس لیتے ۔ وہ انھیں یہودیوں کا ایک فرقہ خیال کرتے تھے ۔تاہم دوسری صدی مسیحی تک غیر قوم دانشوروں نے مسیحیت پر حملے کرنے شروع کردیتے تھے۔دوسری صدی کے شروع میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت زیادہ مسیحی فلسفہ کی ترقی شروع ہوچکی تھی۔اور ہم اور مسیحیت کے بارے میں اور ریفرنس جو کہ غیر قوم تحریروں میں پائے جاتے ہیں۔دیکھتے ہیں چرچ فادروں کے کام(C90.200 AD )ابتدائی کلیسیاءی سائز بہت گرانقدر اور قابل غور ہیں ۔ان مصنفین نے مسیحی ایمان کے دفاع پر بہت سی کتابیں لکھیں اور ان مصنفین سے بہت زیادہ شہادتیں ملیں ۔ان میں سے کچھ رسولوں کے ہم عصر تھیں ۔ جن سے یسوع کے وجود کا ثبوت ملتا ہے ۔
اس کے علاوہ پہلی اور دوسری صدی کی انجیل مقدس کے بہت سے حوالہ جات دیے گئے ہیں جو کہ بعد کے قلمی نسخوں سے متفق ہیں۔علم ماہر آثار قدیم نے حال ہی میں بہت سے قلمی نسخوں کو دریافت کیا ہے۔یہ ٹکڑے نئے عہد نامہ کے قلمی نسخوں کی مکمل نقلیں تھیں۔یہ قلمی نسخے پارچہ جات پر اور پائپرس کے بتوں پر لکھے ہوئے تھے ، جو کہ صدیوں تک ملبہ کے ڈھیروں میں بھی محفوظ رہے۔ان میں بہت سے نسخے تیسری اور چھوتھی صدی کے ہیں ۔جو سب سے پرانا نسخہ ایک چھوٹے سے پائپرس کے پرچہ پر تھاجاناجاتا ہے۔جوکہ2 1/2 × 3 1/2
سائز کا ہے۔جس پر یوحنا کی انجیل کی18:31-33 آیات درج ہیں جسے عالموں نے دوسری صدی کے آغاز کا نسخہ قرار دیا ہے ۔
اسبویس(Eusebius)چوتھی صدی کا مورخ بیان کرتا ہے کہ مرقس،پطرس رسول کا مترجم تھا ۔ اس نے پطرس رسول کے ساتھ AD.60 میں روم تک سفر کیا روم کے شہنشاہ نیرو کے دور حکومت کے دوران ، رومی حاکموں نے مرقس کی انجیل ایک نقل شہادت کے طور پر مسیحیوں کے خلاف استعمال کی جس کے نتیجہ میں بہت سے مسیحیوں پر ظلم کیا اور بہت سے شہروں کو جلا دیا۔ایک پائپرس کے پارچے پر بہت کم لکھا ہوا ملا جس پر لکھا ہوا تھا”یسوع مسیح،خُدا کی خوشخبری“اس موقع پر مسیحیوں کو ایذارسانی کے تحور پر قربانی کے بکرے بنایا گیا۔مرقس کی انجیل کا کچھ حصہ بلاشک وشبہ مرقس کی انجیل کچھ حصہ کے غلط معافی نکال کر بغاوت کے طور پر استعمال کیا گیا درحقیقت یہ ایک اچھا ثبوت ہے کہ بائبل کا تھوڑےسے حصہ میں ترمیم کی گئی یہودیوں کے پاس بالکل صحیح بالکل صحیح تواریخی ریکارڈ موجود ہے۔(قدیم زمانہ کا بہترین) کیونکہ وہ ایمان رکھتے تھے کہ خُدا انھیں تاریخ کے ذریعے کچھ سکھانا چاہتا ہے ۔
ولیم(William )فوکس ویل(Foxwell ) البرائٹ(Albright )
ولیم ،فوکس،البرائٹ دنیا کا بائبل کا بہت ہی مشہور ماہر علم عمارات ہے ۔اُس نے کہا ”میرے نظریہ کے مطابق نئے عہد نامہ کی ہر کتاب ایک بپتسمہ یافتہ یہودی نے40-80عیسوی ےعنی پہلی صدی کے درمیان تحریر ہے۔(بہت ممکن ہے کہ یہ تقرےباً(450-75)کے درمیان ہو۔)
نیا عہد نامہ یسوع کے ساتھ رہنے والے مصنفین نے لکھا ۔جس میں اسکے اپنے شاگرد پطرس یوحنا اور متی شامل ہیں ۔ اور بعد میں پہلی صدی مسیحی کے دوران رسولوں نے اس خدمت کو انجام دیا۔جن میں پولوس،لوقا،مرقس اور یہودہ شامل ہیں ۔جدید عاممین نئے عہد نامہ کو پہلی صدی مسیحی کی تحریروں کو بنیادی ذریعہ سمجھتے ہیں ۔بیسویں صدی مسیحی میں نئے عہد مامہ کی ماہر آثار قدیمہ نے ہزاروں دریافتیں جو کہ یونانی قلمی نسخوں پر مشتمل میں درافت ہوچکے ہیں ۔جو کہ سےنکڑوں سال پرانی ہیں ان تمام قلمی نسخوں سے جو اس صدی سے پہلے دریافت ہوچکے۔نئے عہد نامے کے5300سے زائد یونانی قملی نسخے پائے جاتے ہیں ۔اور24000 قملی نسخوں کے حصے دریافت ہوچکے ہیں جو کہ پڑھنے کے لئے دستیاب ہیں ۔دوسرے لفظوں میں نئے عہد نامہ کی اصلی یونانی زبان میں قلمی نسخے دستیاب ہیں جو جدید انگریزی زبان میں ترجمہ کےئے(یا ا س سے پہلے)دستیاب ہیں ۔
سر فرانس کنیوں جو برطانوی عجائب گھر کا ڈائرےکڑ اور پرنسپل لائبریرین تھا ۔بیان کرتا ہے ۔
”کسی شک کے لئے آخری بنیاد کہ کلام مقدس ہمارے پاس پختہ طور پر آیا جیسا کہ انھوں نے لکھا تھا ۔ نئے عہد نامہ کی کتابوں میں اصلیت اور راستبازی دونوں ہی مکمل طور پر عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔“
پولوس رسول کی 1کرنتھےوں 15:5-8 کے مطابق پانچ سو سے زائد آنکھیں دیکھے گواہ تھے جن میں نئے عہد نامہ کے رسول بھی شامل ہیں ۔ جنہوں نے یسوع کو جی اُٹھنے کے بعد دیکھا ۔ لیکن ان میں سے بہتوں نے اس کو ضبط تحر یر نہیں کیا ۔ بہت سوں نے انجیل کی منادی کی اور ان میں سے کچھ نے کتابیں لکھیں ۔ ان دنوں میں یہودیوں کی ایک کثیر تعداد کلام مقدس کو پڑھ سکتی تھی ۔ لیکن کچھ کو لکھنا سکھایا گیا۔
ترسیس کا ساﺅل ایک بڑا یسوع کے ذہن کا ہم عہد تھا ۔ یہ شک ترسیس کا خوفناک ساﺅل تھا ۔ جس نے مسیحیوں کی ایذارسانی کے لئے وہ سب کچھ کیا جو اعمال کی کتاب میں درج ہے اور بعد میں وہ پولوس رسول کے طور پر جانا گیا اگر ساﺅل پولوس رسول کے طور پر تبدیل نہ ہوتا تو وہ یہودیوں کا ایک بہت بڑا ربی ہوتا ۔ وہ اُن چند رسولوں میں سے ایک تھا ۔ ترسےس کا ساﺅل یسوع کے زمانہ میں رہتا تھا ۔درحقیقت ساﺅل مسیح کی پیدائش کے دس سال کے عرصہ میں پیدا ہوا۔ترسیس موجودہ دور کا جنوبی ترکی کی علاقہ ہے ۔ ساﺅل یروشلم میں ربی گمالی ایل سے تعلیم حاصل کرنے کےلئے آیا ۔ جب اُس کی عمر بیس سال تھی۔ سو وہ مسیح کے مصلوبیت کے وقت یروشلم میں موجودتھا۔ مگر ایسی کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔ کہ ساﺅل یسوع سے ملا۔سوائے اس کے کہ اس نے پہلے خوشخبری کی منادی کی رسولوں کی واضح ہدایت کے بغیر ۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ یسوع کے بارے میں مسیح کی گلیل اور یہودیہ میں خدمت کو جانتا تھا یا ہوسکتا ہے کہ اسے برنباس نے نصیحت کی ہو۔پولوس رسول بعد دوسرے رسولوں سے یروشلم میں ملا ۔ جنہوں نے خوشخبری کے متعلق اس کے خیالات معلوم کئے لوقا کی انجیل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پولوس کی انجیل ہے یا بہت قیاس کریں۔ پولوس اس کا بنیادی وسیلہ ہو جب لوقا اس کے ساتھ سفر کیا۔
اگرچہ پانچ سے زائد گواہوں نے یسوع کے متعلق کچھ نہیں لکھا ۔یسوع کی مضبوط گواہی پہلی اور دوسری صدی کے آغاز میں پہلے شہد کی موت سے ملتی ہے ۔ بہت سے آنکھوں دیکھے گواہ جنہوں نے یسوع کو جی اٹھنے کے بعد دیکھا تھا اور رسولوں کی تحریریں ،وجود ہیں ۔
( جیسا کہ ہرماس کا چرواہا)(اور برنباس کے خطوط) جو کہ پہلی صدی میں لکھی گئیں۔تاہم صرف نئے عہد نامہ ہی میں موجود کتب مقدسہ کو ابتدائی کلیسیاءکے اختیار، اور روح القدس کی رہنمائی اس میں شامل کیا گیا ۔پہلی اور دوسری صدی سے ہمیں بڑی ہیبت ناک گواہی ملتی ہے جو نئے عہد نامہ میں موجود کتب مقدسہ کی تصدیق کرتی ہے ۔ ان میں سے بہت سی تحریریں نئے عہد نامہ کے سن کے مسیحیوں نے تحریر کےئں۔کیونکہ کیونکہ نئی تحریریں اس جدید تاریخ میں بڑی آسانی سے دریافت کرلی گئیں ہیں ۔پہلی اور دوسری کی نئے عہد نامہ اور مسیحی مصنفین کی ہزاروں تحریریں ملی ہیں ۔اور دوسری کے آغاز کی ان لوگوں کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے یسوع مسیح کو دیکھا ہے اور ایک یا دو رسولوں کو بھی دیکھا۔
پہلی صدی کے آخر کا مسیحی تعلیمات کا ایک مجموعہ اور مسیح خُداوند کی دعا جو متی6:9-13 میں لکھی ہوتی ملتی ہے اور اعشائے ربانی کی عبادت اور بپتسمہ کے متعلق تحریریں ملتی ہیں ۔
برنباس:۔(پہلی صدی کا آخر) بہت ممکن ہے کہ یہ برنباس کی تحریر ہے ۔(اگرچہ بہت سے لوگ اسے متنازعہ کہتے ہیں ) جو رسولوں کے اعمال کی کتاب میں ملتا ہے اس کے متعلق کیا جاتا ہے کہ یہ بھی ان پانچ سو500گواہوں میں سے ایک ہوسکتا ہے ۔دوبارہ غور کریں یسوع جو جسم میں ظاہر ہوا ۔ وہ دونوں طرح سے جسم کے لحاظ سے وہ آدم کا بیٹا نہیں ہے مگر وہ خدا کا بیٹا ہے ۔ تب سے وہ کہتے تھے کہ وہ بیٹا ہے ۔ جب کہ داﺅد اس کے بارے میں کہتا ہے ۔خداوند نے میرے خُداوند سے کہا۔میری دینی طرف بیٹھ جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاﺅں کی چوکی نہ کردوں۔اور دوبارہ ےسعیاہ نے کہا” خُداوند نے مسیح کہا ۔ میرے خُداوند میری دینی طرف بیٹھ اور قومیں اُس کے سامنے فراہم ہوتیں۔اور میں بادشاہوں کی طاقت کو ٹکڑے ٹکڑے کردونگا۔دیکھیں داﺅد اسے کس طرح خُداوند اور خدا کا بیٹا کہتا ہے۔
پولیکارپ:۔(پہلی صدی کے آخر میں )یسوع کا ایک شاگرد یوحنا اور سمرنہ کا بشپ ممکن سے وہ بھی ان پانچ سو گواہوں میں سے ایک تھا۔
” یہ باتیں اے میرے بھائیو! میں راستبازی کے متعلق تمہیں لکھتا ہوں نہ میں اپنی طرف سے کچھ لکھتا ہوں مگر تم نے مجھے دعوت دی تھی تاکہ ہم سے سب حکمت کو حاصل کرسکیں پولوس رسول کی برکت اور خُدا کے جلال سے جب وہ تمہارے درمیان تھاتو اس نے بڑی جانفشانی اور لگن سے تمہیں سچائی کا کلام سکھایا ان سب کچھ کی موجودگی میں جو اس وقت زندہ تھے ۔ اور جب تم سے دور تھا تو اس نے تمہیں ایک خط لکھا ۔
جیسے اگر آپ احتیاط سے پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کس طرح ایمان پیدا ہوتا ہے ۔ وہ ایمان جو تمہیں دیا گیا بڑی بھےد کے ساتھ اس کی پےروی کریں ۔ اور محبت سے آگے بڑھےں خُدا ، مسیح اور اپنے پڑوسےوں کی طرف پڑھےں کیونکہ اگر کوئی اس فضل کو اپنے اندر رکھتا ہے تو وہ اس فضل کواپنے اندر رکھتا ہے تو وہ راستبازی کے حکم کو پورا کرتا ہے۔
پولیکارپ کا خط(3:21-23 )
لیکن خُدا اور باپ اور ہمارا خدا وند یسوع مسیح جو خُدا کا بیٹا ہے اور ہمارا ابد تک سردار کاہن آپ کو ایمان اور سچائی میں بڑھائے گا۔اور تمام حلیمی،دانائی،صبر،آزمائش۔برداشت اور خالص پن اور وہ تم پر اور اپنے مقدسےن پر اپنی بےشمار برکتےں نازل فرمائے،اور ہم پر اور تم پر پر اور تمام لوگوں پر جو آسمان کے نیچے ہیں جو ہمارے خُداوند یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں ۔اور اس باپ پر جس نے اسے مردوں میں زندہ کیا۔
پےپاس:۔(Papias)پہلی صدی کے آخر میں ۔
ایک بشپ جسے یوحنا نے مخصوص کیا اور اس کا دوست پولیکارپ مرقس، پطرس رسول کا مفسر تھا۔اس نے وہ سب کچھ ٹھیک اور درست طور پر لکھ دیا جو اسے یاد تھا ۔ جو کہ صحیح ترتیب کے مطابق نہ تھا ۔جس طرح اس نے فرمایا تھا یا جس طرح اس کے کام تھے ۔ اس نے کبھی خُداوند کو کلام کرتے نہیں سُنا تھا ۔ یا جس طرح اس کے کام تھے اس نے کبھی خُداوند کو کلام کرتے نہیں سُنا تھا اور نہ ہی وہ اس کے ساتھ رہا تھا۔ مگر اس کے بعد جس طرح میں گیا وہ پطرس رسول کے ساتھ رہا ۔جس نے اسے ہدایت دیں۔ مگر یہ سب کچھ خُداوند کی تعلیمات ایک ترتیب کے ساتھ نہ تھیں جس واسطے مرقس نے اپنی تحریر میں وہ سب باتیں لکھ دیں جو اسے یاد تھیں۔لیکن اس بات کا س نے خاص خیال رکھا کہ جو کبھی بات اس نے سُنی تھی ۔اس کو وہ نہ بھولا۔اور اسے تحریر کیا اور اُس نے کوئی بات اپنی طرف سے یا چھوٹی نہیں لکھی(پائپیاس سے اقتباس)
”متی رسول نے خُداوند کے الہام سے وہ سب باتیں عبرانیوں زبان میں لکھیں اور اس نے اسکی تشریح احسن طریقہ سے کی جس طرح وہ کرسکتا تھا۔
روم کا کلیمنٹ:۔(96 عیسوی( پطرس کا مخصوص کردہ بشپ)
مگر پرانی اقدیم مثالوں پر دھیان نہ دیں۔آئیں ہم بہت ہی جدید روحانی ہےروز کے پاس آئیں۔ ہم اپنے دور کی بے مثال مثالیں لیتے ہیں ۔حسد اور نفرت سے نہیں بہت عظیم اور راستبازی کلیسیاءکے ستون ستائے گئے اور ان کی نوبت موت تک پہنچی آئیے ہم آنکھوں کے سامنے ان رسولوں کے کارناموں کو رکھیں ۔ پطرس نے بھی بہت سی تکلیفیں اٹھائیں۔اور اپنی خدمت کے دوران بہت مرتبہ ستایا گیا اور جہاں تک وہ شہید کیا گیا اور اس وجہ سے وہ اپنے آرام کی جگہ جلال میں پہنچایا گیا ۔حسد کی وجہ سے، پولوس رسول نے کبھی یہودیوں کے ہاتھوں بہت سی تکلیفیں اٹھائیں۔سات مرتبہ وہ قید میں ڈالا گیا ۔ بھاگنے پر مجبور کیا گیا اور سنگسار کیا کیا گیا ۔ مشرق ومغرب میں کلام کی منادی کرنے کے بعد اسکی مثال اور شہرت بنی اپنے ایمان کے سبب سے ہی اس نے ساری دنیا کے سامنے راستبازی کی تعلیم دی ۔اور انتہا تک پہنچا اور شہید کیا گیا۔اور اس نے جام شہادت نوش کیا ۔پس وہ دنیا سے تو جدا ہوگیا مگر اس کو پاک مقام میں پہنچا یا گیا اور اس نے اپنے آپکو صبر کی ایک بہترین نمونہ پیش کیا ۔
رسولوں نے ہم تک خُداوند یسوع مسیح کی خوشخبری پہنچائی ۔ انھوں نے یہ خوشخبری خُداوند یسوع مسیح سے حاصل کی اور یسوع مسیح نے خُد ا سے ۔ پس خُداوند مسیح خُدا کے طرف سے بھیجے گئے ۔ اور رسول خُداوند یسوع مسیح کی طرف سے ۔ یہ دونوں ہی تقرریاں بالترتیب ہوئےں اور خُدا کی مرضی سے ہوئیں ۔ رسولوں نے خُداوند یسوع مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کلا یقین کرنے اور خُداوند سے ارشاداعظم لینے خُدا کا کلام قائم کرنے کے بعد وہ خُدا کی بادشاہی کی منادی کرنے کےلئے گئے ۔ اور روح القدس مکمل طور پر ان کے ساتھ تھا ۔انھوں نے نادی کرنا شروع کہ خُدا کی بادشاہی قریب آگئی ہے ،اور انھوں نے ملکوں اور شہروں میں روح القدس کے پہلے پھلوں کو اور جنہوں نے اپنے آپ کا ثابت کیا کہ وہ روح سے مسیح شدہ ہیں ان کو بشپ اور ڈ یکن مقرر کیا۔پس وہ کلام میں ایک خاص جگہ فرماتا ہے۔”میں ان کو راستبازی میں بشپ مقرر کرونگا اور ان کے ڈیکن ایمان میں ”گلمیٹ42:3-9
انطاکیہ کا اگناتیئس:۔(110-117AD )یوحنا رسول کی طرف سے مخوص کردہ ایک بشپ۔
”مگر ہمارا طبیب صرف برحق خُدا ہے ۔ جو سب کا خُداوند ہے ۔ خُدا باپ اور اس کا اکلوتا بیٹا یسوع مسیح ۔ ہمارا خُداوند خُدا بھی ایک طبیب کی طرف ہے ۔ یسوع جو مسیح ہے۔اس کا اکلوتا بیٹا اور اسکا کلام۔ جو ابتداءسے ہے جو بعد میں انسانی شکل میں کنواری مریم سے پیدا ہوا۔”کہ کلام مجسم ہوا۔“
”کہ ہمارا خُداوند یسوع مسیح خُدا کے مقرر کہ وہ الہی منصوبہ کے مطابق کنواری مریم کے بطن سے ، داﺅد کی نسل سے اور روح القدس کی قدرت سے پیدا ہوا ( اگناتیس18:2-3 ) ایک ایمان سے جو خُداوند یسوع مسیح پر ہے کہ وہ داﺅد کی نسل سے جسم کے اعتبار سے وہ ابن آدم اور ابن خُدا ہے ۔
”وہ(یسوع مسیح)دنیا کی ابتداءسے پہلے باپ کا اکلوتا بیٹا ہے ، کلام خُدا کے ساتھ تھا۔جو صرف اسکا اکلوتا بیٹا ہے اور مسیح ابد تک رہے گا ۔ اور اسکی بادشاہی کی انتہا نہ ہوگی اسکا اکلوتا بیٹا ہے اور مسیح ابد تک رہے گا ۔ اور اسکی بادشاہی کی انتہا نہ ہوگی دانی ایل نبی فرماتا ہے ۔ (اگناتیس
(6:46 )
میتھیٹس(Mathetes ):۔دوسری صدی عیسوی کے شروع کا خادم۔
”جیسا کہ میں نے کہا یہ مخص زمینی ایجاد نہ تھی جو ان کے سپرد کردی جاتی نہ یہ محض انسانی ارادوں کا نظام تھا جس کی عدالت کرتے اور صحیح طریقہ سے محفوظ کرتے ، نہ یہ محض انسانی بھیدوں کے بارے میں انکے ساتھ باندھا کوئی عہد تھا مگر وہ خود ہ بر حق خُداتھا۔جو کہ قادرِمطلق ہے تمام چیزوں کا خلق کرنے والا اور جو نادیدنی ہے جس نے اُسکو آسمان سے بھیجا اور وہ آدمیوں کے درمیان رہا جو برحق اور پاک اور خدا کا مجسم کلمہ ہے ۔اس نے اپنے کلام کو ان کے دلوں میں قائم کیا جسطرح ایک بادشاہ اپنے بیٹے کو بھیجتا ہے جو کہ بھی ایک بادشاہ تھا ۔ اس نے اسے بھیجا۔جس طرح خُدا نے اسے بھیجا ۔ تاکہ کھوئے ہوﺅں کو تلاش کرے ۔وہ ہمیں مجبور نہیں کرتا کیونکہ خُدا کی ذات میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہمیں تلانے کے لئے اس نے اس کو بھیجا ۔ نہ کہ انتقام لینے والے طور پر بلکہ ہم سے پیار کرنے کےلئے خُدا نے اس کو بھیجا ۔ نہ ہماری عدالت کرنے کو اس نے اس کو بھیجا ۔
جسٹن شہید:۔(دوسری صدی عیسوی کا خادم) ایک خط مسیحی ایمان کے دفاع میں شہنشاہمارکوس کو155عیسوع میں لکھا گیا ۔
”اور جب ہم اس کلمہ کی بابت کہتے ہیں جو کہ خُدا کی پہلی پیدائش تھا ۔ جو کہ کسی بھی جنسی تعلق کے بغیر پیدا ہوا اور وہ تھا خُداوند یسوع مسیح۔ہمارا استاد ، مصلوب ہوا مرگیا اور دوبارہ جی اٹھا اور آسمان پر چڑھ گیا ۔
ہم کہتے ہیں کہ کوئی بھی اس سے مختلف نہیں ہے کہ وہ جس طرح تم اپنے آپ کو جو پیٹر کے بیٹے کہلاتے ہو ۔ مگر جس طرغ ہم نے اوپر بیان کیا کہ شیطان اس کی باتوں کا مرتکب ہوتا ہے ۔ اور ہم نے سےکھا ہے کہ جو شیطان کے نزدیک رہنے میں وہ ناپاک ہیں ۔ اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ جو مکاری سے زندگی گزارتے ہیں اور تو بہ نہیں کرتے وہ ہمیشہ ہمیشہ کی آگ میں سزا پائیں گے۔
”علاوہ ازیں خُدا کا بیٹا یسوع کہلاتا ہے ۔ اس کی دانائی کے حساب سے وہ خدا کا بیٹا کہلانے کے لائق ہے ۔ کیونکہ تمام مصنفین خُدا کو آدمیوں اور دیوتاﺅں کا باپ کہتے ہیں ۔ اور اگر ہم یہ یقین کرلیں کہ خُدا کا کلمہ خُدا سے عجیب طور پر باپ کہتے ہیں ۔ اور اگر ہم یہ یقین کرلیں کہ خُدا کا کملہ خدا سے عجیب طور پر پیدا ہوا ۔ تمام پیدائش سے مختلف جس طرح ہم نے اوپر بیان کیا کہ یہ آپ کے کےلئے تو کوئی انوکھی چیز نہیں ہے جو بارے کو خدا کہتے ہیں کہ یہ فرشتے کی مانند خُدا کا کلام ہے ۔ لیکن اگر کوئی اعتراض کرتا ہے ۔ کہ وہ مصلوب ہوا تھا ۔ تو اس میں بھی وہ ان کو اس کے ساتھ اس کے سادی شمار کرتے ہیں جیسے جو ئپیر کے بیٹے ، جس نے مصیبت اٹھائی جیسا کہ ہم اس کو شمار کرتے ہیں ۔ان کی تکالیف جو موت کےلئے تھیں منفرد تھیں تو کیا وہ ان سے کم تر معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے برعکس ہم اسکو کی ذات کو بلند تر ثابت کریں گے جیسا کہ اس کورس کے حصہ میں ہم نے آپ سے وعدہ کیا کہ ہم اسکو اعلیٰ ترین ثابت کریں گے۔
جیسا کہ وہ پہلے بھی ثابت ہوچکا ہے ۔ وہ اپنے کاموں کے سبب سے اعلیٰ ہے ، اگر ہم اس بات کا یقین کرلیں کہ وہ کنواری سے پیدا ہوا اس کو ہم عمومی طور پر قبول کرلیں اور تم فریس کو قبول کرتے ہو۔
اور ہم کہتے ہیں کہ اس نے لنگڑوں کو چلایا اور مفلوجوں کوا چھا کیا اورہم کو جو جنم کے اندھے تھے ،اور دوبارہ سُنے کہ یسعیاہ نے اپنے کلام کو اس کے متعلق سے ہی پیشگوئی کردی تھی کہ وہ کنواری سے پیدا ہوگا اس کے کلام میں فرمایا گیا ہے ۔ ” دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اس کے بیٹا پیدا ہوگا اور وہ اس کا نام اعمانوایل رکھیں گے جسکا ترجمہ ہے خُدا ہمارے ساتھ اور وہ باتین جو آدمیوں کو ناممکن معلوم ہوتی ہیں تو وہ خُدائے پاک روح نے اپنے ان کے بارے میں نبوت کروی۔ کہ وہ اس طرح واقع ہونگی اور جب وہ اسی طریقہ سے واقع ہوگئیں تو پھر کوئی بے یقینی نہ رہی ۔مگر ایمان لائے کیونکہ ان کے متعلق پہلے ہی پیشن گوئی ہوچکی تھی ۔
اور پھر”دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی،اس کا مطلب ہے کہ کنواری بغیر مرد کے ملاپ کے حاملہ ہوگی کیونکہ اگر وہ کسی مرد سے ملاپ کرلیتی تو وہ کنواری نہیں ہوسکتی تھی ۔ لیکن خُدا کی قدرت ایک کنواری پر نازل ہوئی اور اس نے اس پر سایہ کیا تب وہ کنواری حاملہ ہوگئی ۔ ” اور خُدا کا ایک فرشتہ جو اس کی طرف بھیجا گیا اس کے پاس ایک خوشخبری کا پےغام لایا اور فرمایا دیکھ خُدا کا پاک روح تم پر نازل ہوگا اور تیرے بیٹا ہوگا۔اور وہ خُدا تعالی کا بیٹا کہلائے گا اور تو اس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا ۔ اور جنہوں نے ہمارے نجات دھندہ یسوع مسیح کا ریکارڈ جو ان سے متعلق تھا مرتب کیا اور جس پر ایمان سے جس طرح یسعیاہ نبی نے ہمیں پہلے ہی بنا دیا اور نبوت کی روح نے آگاہ کیا کہ وہ اسی طرح پیدا ہوگا ۔ جس طرح ہمیں پہلے آگاہ کیا گیا ہے ۔”خُدا کے کلام کو سمجھے بغیر روح القدس کو اور خدا کی قدرت کو سمجھنا مشکل ہے جیسا کہ موسیٰ نبی نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وہ خُدا کا پہلوٹھا ہے اور یہ وہی تھا۔کہ جب وہ ایک کنواری پر نازل ہوا اور اس پر سایہ کیا اور وہ حاملہ ہوئی نہ کہ ایک مرد کے ساتھ ملاپ کرنے سے بلکہ خُدا کی قدرت سے اور عبرانی زبان میں ” یسوع“ نام کا مطلب ہے نجات دینے والا اور جس وقت خُدا کا فرشتہ کنواری سے ہمکلام ہوا اور کہا ”اور تو اس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا ۔ اور نبی کلام الہی کے علاوہ کسی اور چیز سے ملیم نہیں تھے۔ اور سُنئے وہ زمین کے کس حصے پر پیدا ہوگا اور دوسرے میکاہ نے اپنے میں پہلے ہی اس کی پیشن گوئی کردی تھی اور فرمایا اے یہودہ کے شہر بیت الحم تو یہودہ کے حاکموں میں سے کسی سے چھوٹا نہیں ہے کیونکہ تجھ سے ایک حاکم نکلے گا جو میرے لوگوں کی غلہ بانی کرئے گا ۔“”اب یہودہ کے علاقہ یروشلم سے35 میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹا سا گاﺅں گا۔جس میں یسوع مسیح کی پیدائش ہوئی۔”اور جیسا کہ آپکو یقین پختہ ہے اور کرینیس کے محصول لینے کے رجسٹروں میں بھی اس کا ریکارڈ موجود ہے ۔ جو کہ یہودیہ کا پہلا مختار کار تھا ۔
اس کے ہمارے پاس اور بہت سی شہادتیں موجود ہیں ۔جو کہ دوسری صدی عیسوی میں ضبط تحریر میں لائی گئیں ان میں ایرنیس طرکلیاں اور دوسرے بہت سے مصنفین شامل ہیں ۔ان مصنفین نے کلیسیاءی تاریخ اور رسموں کو زیر بحث نہیں لایا ۔ پس ہم کلیسیاءی تاریخ کے بارے میں رسولی دور(33-96AD )میں بہت زیادہ جان جاتے ہیں ۔ اور ہم دوسری صدی کی کلیسیاءی کے متعلق کم جانکاری رکھتے ہیں مگر ہمارا پختہ یقین ہے کہ گواہیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا کہ ناصرت کا یسوع ایک تاریخی شخصیت تھا ۔
بائبل کے ساتھ ساتھ بے شمار ایسی تحریریں موجود ہیں جو ابتدائی کلیسیاءکے مسیحی مصنفین کے تحریر کس جس سے انجیل کی سچائی کی تصدیق ہوتی ہے آج ہم انہی کی تعلیم کی سچائی پر مسیحی بدن کو تعمیر کرسکتے ہیں ۔اور نئے عہد نامہ کی پہلی اور دوسری صدی کی مسیحی تحریروں سے ہم کلام مقدس کو اعلیٰ طریقہ سے سمجھ سکتے ہیں ۔ان تحریروں کو ہم کلام مقدس کے میعار کے مطابق تو نہیں رکھ سکتے ۔ تاہم وہ بہتیرین تاریکی تصنیفات میں جو نئے عہد نامہ کے میعار کے مطابق کو معتبر ، قابل اعتبار اور بالکل صحیح ثا بت کرتی ہیں ایک بڑی مضبوط علمی روایت جو کہ ان لوگوں کے ساتھ جڑتی ہے جو رسولی عہد کے زمانہ میں دوسری صدی سے لےکر طرطلیان کے وقت موجود رہے۔
نقائیہ کی کونسل کے وقت جب مسیحیت روم کا سرکاری مذہب بنا تو یہ بھی ایک تحریروں اور ریکارڈ کا بے دھڑک ثبوت ہے ۔
خلاصہ یہ ہے ہم جانتے ہیں کہ یسوع مسیح یقینا ایک تاریخی شخس تھا کیونکہ اس کے متعلق لاتعداد دستاویزی ثبوت موجود ہیں ۔اور رسولوں کے عہد میں جنکا ذکر نئے عہد نامہ میں بھی بہت سی رسم و رواج ان تحریروں میں موجود ہیں جن سے نئے عہد نامہ کی تصدیق ہوجاتی ہے ۔
خُدا تعالیٰ نے یسوع کی گواہی دینے کے لئے تین چیزوں پر چھوڑی ہیں ۔روح القدس کلام مقدس اور کلیسیاءیا جیسا کہ یوحنا رسول نے اس کو تحریر کیا اور گواہی دینے تین ہیں روح اور پانی اور خون اور وہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں کچھ مفسروں کے مطابق پانی خدا کا کلام سمجھا جاتا ہے۔اور” خون “شہیدوں کے خون کی علامت ہے جنہوں نے یسوع کی گواہی میں اپنی جانیں دیں ۔اس پیرائے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ خُدا کے تحریری کلام کے علاوہ ہمارے پاس کلیسیاءمیں موجود زندہ گواہیاں ہیں جو کہ پاک روح کی ہدایت سے ہم کو قائل کرتی ہیں ۔کہ ہم خُدا کی نجات کو قبول کریں ۔
یسوع مسیح انسانی جسم میں خُدا تھا:۔ یا یسوع مسیح خُدا تھا جس نے انسانی جسم اختیار کیا تیسری صدی عیسوی کا ایک بہت بڑا مصنف اتھیناس تھا۔جس نے یسوع مسیح کی انجیل حمایت میں ایک سادہ مگرجامع مباحثہ تیار کیا ۔اس کاکام انسانی جسم اختیار کرنا مسیحیت کے لئے پہلی باقاعدہ کوشش تھی۔ اس کی پیدائش پر تعلیمات اکٹھا کرنا اس کی زندگی ، موت،دوبارہ زندہ ہونا ، آسمان پر چڑھ جانا اور یسوع مسیح کی دوبارہ آمد پر مسیحیت پر اتھیناس نے تعلیم کے سات بنیادی نقاط پیش کئے گئے۔ جو درج ذیل ہیں ۔
1۔مسیح کا جسم اختیار کرنا:۔دوفطرتیں۔کامل الہیٰ اور کامل انسانی۔ یہ دونوں فطرتیں مکمل حمایت حاصل ہے(یوحنا8:40 ،1 تیھمتس2:5 ، عبرانیوں2:14-17 ) اس کی کامل الہیٰ فطرت بھی کلام مقدس کے ذریعے ثابت ہے ۔(یوحنا10:3,1:1-3 عبرانیوں1:10-12 ، رومیوں9:5 کلیسوں2:9 ) کیونکہ آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت(رومیوں5:12-19) مسیح کا اکلوتا بیٹا ہے ،جو ہمارے گناہوں کے عوض مرنے کےلئے اور ہمارا درمیانی بنے کےلئے انسان بنا۔(عبرانیوں2:17-18 )
2 ۔انسانوں کے مشابہ ہونا(Kenosis ):۔ تجسم کے وقت مسیح نے نہ صرف اپنی خُدائی ،ماحول اور اپنی حیثیت بطور حاکم کو چھوڑا بلکہ اس نے اپنے الہیٰ وصف کو بھی قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ یسوع نے عارضی طور پر ہر اپنے عالم کل ہونے کی حیثیت کو بھی استعمال نہ کیا۔
(متی24:36 )قادرِ مطلق(مرقس6:5 )حاضر و ناظر(یوحنا4:4 )پاکیزگی(عبرانیوں4:15:9:14 ) عادل(یوحنا5:30 )اور حیات ابدی(1 ۔کرنتھےوں15:3 ) (Kenosis) کے لئے کلام مقدس میں فلپیوں2:6,7 کی کلیدی حیثیت ہے ۔یسوع نے خُدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا بلکہ اپنے آپ کو خالی کردیا۔ یسوع اپنے آپ سے کچھ نہیں کرسکتا(یوحنا5:19)مگر باپ اس میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے (یوحنا14:28 )یسوع سب چیزوں میں ہماری طرح بنا ۔ یسوع نے ایک پاکیزہ زندگی بسر کی ۔ خُدا پر بھروسہ اور پاک روح کی قوت سے(یوحنا14:10-17)
3 ۔نشیب میں جاناDescant :اس کی موت اور جی اٹھنے کے درمیان یوسع نیچے پاتال میں اترا وہاں مسیح نے اپنے فتح کا اعلان کیا اور پرانے عہدنامہ کے ایمانداروں کے لئے نجات کا اعلان کیا ۔(1۔پطرس 4:6 ) اس نے ابلیس کو شکست دی اور ان قیدی روحوں میں منادی کی جو اس اگلے زمانہ سے نافرمان تھیں جب خُدا نوح کے وقت میں تحمل کر ٹھہرا رہا۔(1۔پطرس3:19)Descant(افیسوں4:9) یہ آیت مسیح کے تجسم ، مسیح کے دفن ہونے یا زمین کے نیچے کے علاقہ میں اترنا ہے ۔
4۔دوبارہ زندہ ہونا۔(Resurrection)مسیح اسی جسم کے ساتھ موت سے جی اٹھا جس کے نتیجہ میں اس کی قبر خالی ہے اس سے یہ گواہی ملتی ہے جس سے یسوع کا اختیار اور سچائی اور اسکا کلام سچا ثابت ہوتا ہے(متی12:39-40۔یوحنا2:19 ۔1کرنتھیوں 15:14 )جس سے ہمیں گناہوں کی معافی ملتی ہے اور مسیح کی موت گناہوں کی معافی کے لئے خوش ہے ( رومیوں4:25 ۔1۔ کرنتھیوں 15:17 ۔1 ۔پطرس1:3پرانے عہد نامہ کے کاہن اور پاک ترین مقام اور قربانیاں یسوع کی پاک ترین قربانی کا عکس تھیں جن کا ذکر عبرانیوں کے نام خط اور پرانے عہد نامہ میں کتابوں میں ملتا ہے۔ پرانے عہد نامہ میں جب کاہن قربانی کا خون لےکر پاک ترین مقام میں داخل ہونا اور زندہ واپس آتا تو اس کا مطلب تھا کہ قربانی قبول ہوگئی ہے اس سے مستقبل میں مسیح کے جی اٹھنے اور ابدی زندگی کا پختہ یقین ہوجاتا ہے(1 ۔کرنتھیوں15:18-23 ) اور مسیح زندگی بسر کرنے کی طاقت دیتا ہے ۔
5 :۔آسمان پر اُٹھایا جانا:۔مسیح کا جی اٹھا بدن آسمان پر اٹھایا گیا اور وہ آسمان پر خُدا باپ کے دینی طرف بیٹھا ہے۔اُس نے اپنے زندہ دن کو باپ کے سامنے ازلی قربانی کے طور پر پیش کردیا (عبرانیوں9:14 )وہ ایمانداروں کےلئے جگہ تیار کرنے کو آسمان پر گیا ہے (یوحنا14:2,3
وہ آسمان پر جلال پانے اور کلیسیاءمیں روح القدس کو بھیجنے کے لئے گیا ۔یوحنا7,38,39)
6 :۔عدالت:Session :۔المسیح خُدا باپ کلی دینی طرف بیٹھا ایمانداروں کی شفاعت کرتا ہے اور موجودہ دور میں کلیسیاءکی رہنمائی کرتا ہے ۔ وہ خُدا اور ہمارے درمیان درمیانی کا کردار ادا کرتا ہے ۔(1 ۔یوحنا۔2:12 عبرانیوں7:25 ) اور کلیسیاء ہر حکمرانی کرتا اور رہنمائی کرتا ہے افیسیوں1:2023)وہ قوموں پر مکمل اختیار کے ساتھ حکمرانی کرتا ہے(زبور110)
7 :۔آمدِثانی: ۔المسیح اسی طرح پھر زمین پر حکمرانی کرنے واپسی آئےگا جس طرح وہ جسم کے ساتھ اوپر آسمان پر گیا تھا (اعمال1:9-11 ) وہ مقدسین کے ساتھ زمین پر حکمرانی کرےگا (مکاشفہ21:1-4)وہ کلیسیاءکے ممبران کو انعام دے گا ان کاموں کے جو انھوں نے اس جسم میں رہ کرکئے (2۔کرنتھےوں5:10۔ 2 ۔کرنتھیوں 3:10-15 )
مسیحیت پر سوالات:۔
کیا مسیح نے گناہ کیا یا اس نے نہیں کیا ؟ ۔یسو ع المسیح اپنی موت اور جی اٹھنے کے درمیانی عرصہ میں کہاں گئے؟ ۔تجسم کے وقت المسیح نے کیوں اپنے آپ کو اپنی الہیٰ صفت سے خانی کردیا؟ ۔المسیح کا دوبارہ زندہ ہونا کیوں اہم ہے ؟ ۔اب مسیح کیا رہا ہے ؟ ۔کیا ان میں سے کوئی معاملہ غیر اہم ہے ؟ کونسا نہیں ہے ؟ کیوں ؟
اگر آپ کو ان سوالات کے جواب دینے میں مشکل ہو تو آپ کو مزید مسیحیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
یسوع المسیح نے جب بطور انسان تجسم لیا تو بھی وہ خُدا کا بیٹا تھا:۔
تمام مسیحی بدعتوں کو دو بڑے گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
1 ۔Adoptionism :۔یہ پہلی بدعت یسوع کی انسانی فطرت پر حد سے زیادہ زور دیتی ہے ۔
2 ۔Docetism :۔یہ دوسری بدعت اس کی الہیٰ فطرت پر حد سے زیادہ زور دیتی ہے جبکہ اس کی انسانی فطرت کا نکار کرتی ہے یہاں ہم ابتدائی کلیسیاءی تاریک کی بڑی بدعتوں کا معائنہ کریں گے ۔ اور ہم دو انتہا پسندوں کے درمیان ایک جھولنا دیکھیں گے ۔مغرب کی کلیسیاءی
(سکندریہ کے وسط میں اور ادرگرد)وہ مسیح کی الہیٰ فطرف پر زور دیتے ہیں ۔ جبکہ مشرقی کلیسائیں (انطاکیہ کے گرد ونواح) یسوع مسیح کی انسانی فطرت پر الہیٰ فطرت ہر چیز سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ خدا کے کلام میں بدعت کے سادہ معافی جو کہ نئے عہد نامہ میں پائے جاتے ہیں ۔”پھوٹ ڈالنے والے آدمی ک میں اس کا مطلب بہت سی باتوں پر ہوتا ہے لیکن لازمی طور پر ایسا شخص جو کلیسیاءی تعلیم میں بدعت پیدا کرتا ہے ۔اور پھر کلیسیاءکردیتا ہے ۔ اور سچائی کوکسی اور طرف لےجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں مسیحی تعلیم کو اس کے اصل مقام پر رکھنا چاہیے۔
بنیادی سطح پر ہمارے پاس رسولوں کی تعلیم اور نقائیہ عقائد موجود ہیں ۔ جوکہ راسخ الاعتقادی کی بہترین تشریح کرتے ہیں ۔ ایک شخص جو ان تمام عقائد پر ایمان نہیں رکھتا ایک مسیحی نہیں ہے ثانوی سطح پر مسیحی بدعتیں ہیں ۔ اور دوسری تعلیمی غلطیاں،ایک ایمان رکھتا ہے کہ یسوع خُداوند سے اور ابھی تک مسیحیت پر غلط تعلیم میں مبتلا ہے ۔ ہم اندازہ نہیں لگاسکتے کہ آیا ایک شخص اس بنیاد پر کہ وہ یسوع مسیح کے بارے میں کیا ایمان رکھتا ہے نجات یافتہ ہے یا نہیں ۔ جب ہمارا ایمان ہے کہ ہم خُدا کی نظر میں راستباز ہیں تو ایک شخس بچانے والا ایمان رکھتا ہے ۔
کلیسائیں ابتدائی صدیوں میں بہت سے بدعتی تعلیموں نے جنم لے لیا تھا ۔ کچھ تعلیمی غلطیوں نے کچھ لوگوں نے قابو پالیا ۔ جو واقعی سچائی کی تعلیم پر عبور رکھتے تھے ۔ کچھ بدعتی تعلیموں نے سچائی کی تعلیم کو بہت غلط انداز سے بیان کیا ۔ ان بدعت تعلیموں نے واقعی کار آمد ہونے کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کیونکہ انھوں نے چرچ کونسل کو ناراض کردیا ۔ جنہوں نے یسوع مسیح کی شخصی زندگی پر روحانی تعلیم دی جو کہ عقائد اور معتبر کتب میں درج تھی ۔”عقیدہ“ہمارے ایمان کے متعلق ایک مختصر تشریح ہے ۔کتب مقدیہ،اور”اقرار کرنا“دستاویزات کی ایک لمبی تفصیل جو کہ مسیح ایمان کو مفصل طور پر پیش کرتی ہے ۔
ایک راسخ الاعتقاد ایمان رکھتا ہے کہ نظام ہمیں نہیں بچا سکتا۔یہ صاف طور پربیان کرتا ہے کہ ہمارا ایمان کا نظام کیا ہے مگر ان بدعتی تعلیموں کا بہتر طور پر سمجھنا کہ ” یسوع مسیح کون ہے ؟
ابتدائی کلیسیاءکی بڑی بڑی بدعتی تعلیموں کی مندرجہ مختصر تشریح پیش کی گئی ہے۔
1 ۔ڈوسیٹزمDocetism :۔پہلی صدی کا اغنا سطی عقیدہ کہ مسیح صرف ایک روحانی مخلوق تھا اس نظریہ کے مطابق مسیح ایک حقیقی انسانی جسم میں ظاہر ہوا مگر حقیقت میں وہ ایک روحانی مخلوق تھا جس طرح کہ ایک فرشتہ یہ ایک یونانی نام ڈوکینDokeinسے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے ”ظاہر کرنا“ڈوسٹ ازم بہت سی دوسری بدعتوں پرع بنیاد کرتی ہے جو کہ یسوع مسیح کی الہیٰ فطرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔
2 ۔اڈاپشن ازم:۔Adoptionism:۔دوسری صدی عیسوی کے آغاز میں بزرگوں کے زمانہ میں یہ بدعت بڑے زور کے ساتھ سامنے آئی۔جس نے سےکھایا کہ ایک آدمی یسوع کو خُدا کے ایک عمل کے ذریعے بطور بیٹا اپنایا گیا۔عمومی طور پر”اڈاپشن ازم“ ایک عقیدہ ہے کہ یسوع ایک آدمی تھا جسے اس کی زندگی میں کسی مقام پر الہیٰ بلندی تک پہنچا یا گیا۔”ڈوسٹ ازم“ کی طرح اڈاپشن ازم کے بھی بے شمار(تراجم موجود ہیں )
3۔ابیون ازم Ebionism :اڈاپشن ازم کو بعض اوقات ”ابےون ازم “ کہا جاتا ہے ۔
جو کہ لفظ ابیونebion جسکا مطلب غریب لیا گیا ہے ۔ پہلی صدی عیسوی میں یہ بدعت یہودی مسیحیوں کے ذریعے وجود میں آئی ۔ ابیونیوں نے پولوس رسول کی تعلیم کو دو کردیا۔ اور موسی شریعت کو زیادہ اہمیت دینا شروع کردی ۔ وہ یسوع کو ایک الہامی نبی مانتے تھے ۔نہ کہ خُدا ۔ ابیونیوں نے سےکھا کہ یسوع مسیحا تھا جو کہ خُدا کا پہلو ٹھا تھا۔تاہم انھوں نے سےکھا کہ وہ صرف ایک آدمی کے طور پر پیدا ہوا اور خُدا کی کامل تابعداری کرتے ہوئے کا ملیت کی بلندیوں تک پہچا ۔ پس یسوع ہماری طرح ہے نہ کہ ہمارا خُدا اور نجات دھندہ۔
4 ۔انمنا سطیت:۔Gnosticism :۔مسیح کے بعد پہلی چند صدیوں تک ایک وسیع مذہبی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔جو کہ کافروں کی پیداوار تھا ۔ مگر اس میں بہت سے مسیحی عناصر بھی شامل تھے اور یہ مسیحیت کے لئے ایک بڑا خطرہ تھا ۔ اعناسطیوں کا خیال تھا کہ روح اچھی ہے اور مادہ برائی ہے۔نجات روح کی مادہ سے جدائی کا نام ہے اور نجات بھید اور اعلیٰ تعلیم سے حاصل کی جاسکتی ہے قدوس خدا ناقابل رسائی اور نہایت خوب ہے ، مگر اس میں سے اور بہت سی کم تر مخلوق نکلی ۔ ان میں سے کم ترین یہودہ تھا ۔ مسیح ایک اعلیٰ ترین مخلوق تھا جبکہ مادہ برائی کانام ہے مسیح صرف روحانی مخلوق تھا اور اسکا صرف ایک دکھائی دینے والا جسم تھا (جو کہ ڈوسٹ ازم کی تعلیم ہے ۔)اور کچھ نے دعویٰ کیا کہ مسیح ایک روحانی مخلوق تھا جو کہ عارضی طور پر یسوع کے ساتھ ملا ہوا تھا جو کہ مرگیا ۔ انمنا سیطوں کا نظریہ یوحنا کی تحریروں اور پولوس رسول کاکلیسوں کے نام خط کے برخلاف تھا ۔
5 ۔مارکیوں ازم:۔Marcionism :۔یہ دو خُدا کے طور پر بہت مشہور بدعت ہے مارکیوں بشپ آف سنوپ کا بیٹا تھا ۔ اس کی تعلیمات دوسری صدی کے آغاز میں نمودار ہوئیں جو ایرنیس اور طرطیاں کی تعلیمات کے خلاف تھیں ۔ مارکیوں نے یہودی کتب مقدسہ کی مخالف کی ۔اس نے دعویٰ کیا کہ عبرانی کتب مقدسہ کا خُدا برائی کو خلق کرنے والا خُدا تھا ۔اور وہ یسوع مسیح کا باپ نہیں تھا ۔ اس کے نظریات ڈوسٹ ازم جیسے تھے ۔ اس نے دعویٰ کیا کہ یسوع انسان نہیں بن سکتا تھا ۔جبکہ یہودیوں کے خُدا جو کہ برائی کا خالق ہے جس نے جسم کو تخلیق کیا ۔ اس نے تعلیم دی کہ یسوع نے مسیحیوں کو خالق خُدا رحیم کا خلق کرنےوالا) سے آزادی دلائی ۔اسکا خیال تھا کہ صرف پولوس رسول ہی یسوع مسیح کی تعلیم کو سمجھ سکا اور اس نے پہلی مسیحی کتب مقدسہ کی فہرست پیش کی ۔ یہ پولوس رسول کے دس خطوط اور لوقا کی انجیل ہر مشتمل ہے ۔ جس پر مارکےون کا ایمان تھا کہ یہ پولوس رسول نے لکھی ہے ۔ اس نے تعلیم دی کہ فضل شریعت کے مخالف ہے محبت عدل کے خلاف ہے یسوع ایک پیار کرنےوال خُدا ہے اور کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا ۔ مارکیون اپنی نے ایک جھوٹا نیا عہد نامہ مہیا کیا اور کلیسیاءکو مجبور کیا کہ اس سچے کینن کوقائم کرے۔مارکیون نے اپنی کلیسیاءقائم کرنے میں کامیاب ہوگیا اور اس کی تعلیمات مشرق میں پانچویں صدی تک زندہ رہیں ۔
مینچا ازمManichaeism :۔یہ ایک بہت بڑا اور بہت منظم اعناسطی مزہب تھا جس کی بنیاد مانہ نے رکھی جو تیسری صدی عیسوی کا ایرانی صوفی تھا۔یہ بڑی تیزی کے ساتھ ساری معلومہ دنیا میں پھیلا۔ مینچا ازم کی تعلیم ”دوخُداوں“ کی تھی۔روحانی اور فطری دنیا کے درمیان جدائی ۔ بھلائی اور برائی کی روحانی قوتیں برابر ہیں اور ایک دوسرے سے آزاد ہیں بھلائی اور برائی کی قوتیں ابتدا ہی سے علیحدہ بادشاہتیں تھیں۔مگر برائی نے بھلائی پر لشکر کشی کی جس کے نتیجے میں جسمانی مادہ وجود میں آگیا ۔بھلائی کی قوتوں نے دنیا کو تخلیق کیا اور ایک دیوار ان دونوں قوتون کے درمیان حائل ہوگئی ۔دنیا اب نیکی اور بدی کے میدان جنگ میں پکڑی ہوئی ہے ۔ مینچا ازم بھی انسانی مخلوقات میں دو فطرتوں کی تعلیم دیتا ہے ۔ ایک شخص میں روح کا ایک الہیٰ نور ہے جسے جسم کے تاریک مادہ سے رہائی پانے کی ضرورت ہے زندگی کا مطلب ہے کہ خُدا کی طرف سے اس جنگ میں حصہ لیا جائے ۔ ہر آدمی اپنے باطن میں نور کا منبع لیے پھرتا ہے ۔ انمنا سےطوں کی طرح (ایک پوشیدہ علم ) یہ نور کا ٹکڑا موت کے بعد الہیٰ دنیا میں واپس چلاجائے گا ۔ یہ پوشےدہ نور آدمی کی ذہانت سے دریافت کیا جاسکتا ہے ، لیکن کچھ اور بھی ہے جو منکشف کیا گیا پےغمبروں کے ذریعے جیسا کہ زور وآسٹر مہاتمابدھ۔یسوع اور بےشک مانی بھی ، رومی دورِحکومت کے دوران مینچا ازم شمالی افریکہ میں ایک مضبوط مذہب تھا ۔مقدس آگسٹین اپنی مسیحیت میں تبدیلی تک نوسال تک اس مذہب کا پےروکار رہا۔
6 ۔آرین ازم Arianism :۔ایرئیس کا مسیحانہ نظریہ ۔ یہ چوتھی صدی عیسوی میں سکندریہ کا بشپ تھا ۔ ایرئیس ایک خدا کا قائل تھا اور خُدا کے بیٹے یا ( ؛لوگوں) جو کہ خُدا کی طرح ایک الہیٰ تھا۔ لیکن خُدا نے اسے خلق کیا ۔ پس یسوع ایک کم ترخُدا تھا یہ نظریہ چوتھی صدی عیسوی میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیلا مگر325 ءمیں نقایہ کی کونسل نے اس کی مذمت کی اور دوبارہ381 ءمیں قسطنطےنہ کی کونسل نے بھی اس کورد کیا ۔
7 ۔میکا ڈونی ازمMacedonianism :۔یہ دراصل علم المسیح کی بدعت نہیں ہے بلکہ یہ ایک علم ارواح کے متعلق تعلیم ہے جس میں پاک روح کا رشتہ باپ اور بیٹے کے ساتھ ہے ۔ یہ بدعتی تعلیم چوتھی صدی عیسوی میں بشپ قسطینطنیہ نے پیش کی اس نے پاک روح کا تعلق جس طرح ایرئیس نے یسوع کے ساتھ پیش کیا تھا اس نے تعلیم پیش کی کہ روح القدس باپ اور بیٹے کے ماتحت ہے اس طرح کی تعلیم کو اپنانے والوں کو نےومیٹا۔ماچیو(یعنی وہ لوگ جو روح کے خلاف جنگ کرتے ہیں ) کلیسیاءنے اس نظریہ کی تردید کی اور اس نظریے کے خلاف احتجاج کیا
۔اپولینارین ازمApollinarianism :۔8 اپولینا رین ازم اپولینا ریس کانام تھا جو کہ چوتھی صدی عیسوی میں لودیکیہ کا بشپ تھا ۔اپولینا رئس نے مسیح دوہری فطرت کی مخالفت کی اس نے یہ تعلیم پیش کی کہ یسوع مسیح کی صرف ایک ہی الہیٰ فطرت کا مالک تھا ۔ اور وہ اس الہیٰ فطرت تھی ۔ انھوں نے اس کی وضاحت کی کہ مسیح کی یہ ایک فطرت چار طرح سے کام کرتی ہے اس کی انسانی فطرت سے غائب ہوجاتا ہے اور ایک تیسری منفرد فطرت دو فطرتوں یعنی الہیٰ اور انسانی کے ملاپ سے وجود میں آئی،یا یہ مرکب ہے (ایک مکمل فطرت کا )انسانی اور الہیٰ کابفرکسی الہام کے ۔
۔نےسٹورین ازمNestorianism :9نےسٹوریس پانچویں صدی کا قسطنطنیہ اس نے یہ تعلیم پیش کی کہ مسیح کی مکمل دو فطرتےں ہیں ایک انسانی اور ایک الہیٰ اس نے تعلیم دی کہ کوئی مریم کو ” خُدا کی ماں نہیں کہہ سکتا ۔کیونکہ وہ صرف انسانی ذات کی ماں تھی ۔431 ءمیں افیسس کی کونسل نے نیسٹوریس کے مسیح کی دو شخصیتوں میں تقسیم والے نظریہ کی تردید کی ۔ مگر نیسٹوریس نے کونسل کے اس الزام کو رد کیا ۔ممکن ہے اس نے تعلیم دی ہوکہ مسیح کی دو ذاتیں اخلاقی طور پر محد ہوئیں یا تاہم بہت سے عالم دین نے اس کا یہ نتیجہ اخذ کیا ۔ کہ نےسٹوریس دراصل ایک شخصیت میں دو ذاتوں کی تعلیم پیش کرتا ہے لیکن یہ تعلیم غلط فہمی کا شکار ہوگئی اور مخالفت شروع ہوگئی کیونکہ وہ اس بات کو ماننے کےلئے تیار نہ تھا کہ مریم خُدا کی ماںہے ۔