پروٹسٹینٹ اور رومن کیتھولک

آج کل پُوری دُنیا میں ہر چیز از سرِ نو وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ بشارتی مسیحی پروٹسٹینٹ اصلاحِ کلیسیا کے تحریر کاموں کا کھوج لگا رہی ہے اور اِسے ماڈل بنا کر شعوری طور پر پروٹسٹینٹ تھیالوجی کا مُطالعہ کر رہی ہے۔

بلاشُبہ یہ روح القُدس ہی کا کام ہے۔ خُدا اصلاح کے اِس نمونے کو پُوری دُنیا کے مسیحیوں کے دل و دماغ پر ظاہر کر رہا ہے۔ خُدا اصلاح کی تعلیم پر ایک بار پھِر زور دے رہا ہے۔ خُدا کی حاکمیت، خُدا کی شریعت، انسان کی سیاہ کاریاں، ایک ایمان کی عدالت،حرف کلام مُقدس کا اختیار اور ایماندار کی کائناتی کہانت۔

آج بہت سے کیتھولک اور مشرقی راسخ العقیدہ ممالک میں بشارتی بیداری ہو رہی ہے۔ نئے ایماندار بشارتی کلیسیاؤں کے ساتھ مل رہے ہیں اور نئی پیدائش کا تجربہ کر رہے ہیں۔ اُ ن کی تبدیلی کی وجہ رومن کیتھولک اور مشرقی راسخ العقیدہ الہیات کی تعلیم ہے۔ وہ محض نام کے مسیحی تھے مگر اب بہت سے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ بشارتی کلیسیاؤں کے پاسبان اپنا بہت سا وقت اِس سوالات کے جوابات کو تلاش کرنے میں صرف کر رہے ہیں۔ کیا اُن کو ایسی تربیت دے کر پُختہ مسیحی بنایا جاسکتا ہے کہ وہ کلیسیاوں میں مُفید خدمت کریں۔ وہ کیتھولک اور پروٹسٹینٹ میں پائے جانے والے تضادات کی وضاحت میں طویل اوقات صرف کر رہے ہیں۔ اُن کی بطور کلیسیائی لیڈر تربیت کی جارہی ہے وہ اپنے بُنیادی علم کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ روایاتی پروٹسٹنیٹ ممالک میں بھی بائبل کے نُقطہ نظر سے بشارتی بیداری کا عمل ہو رہا ہے۔ وہ بائبل کا مُطالعہ سائنسی اندازِ فکر سے کر رہے ہیں تاکہ اصلاحی سوچ میں پُختگی آئے۔ وہ پروٹسینٹ اصلاحِ کلیسیا کے نقشِ قدم کی پیروی کر رہے ہیں اور ہوشمندانہ، قوی، مُرتعش اور گُونجنے والی اصلاحی تھیالوجی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

اصلاحی تھیالوجی؟ آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسیحی کو چاہئیے کہ وہ تائب ہو کر مغربی خدمت کی اصلاح کرے؟
بے شک سنجیدہ مُطالعہ ہر اوسط مسیحی کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ جو اپنے گھریلو بل ادا کرنے، اپنے خاندان کی ضروریات کو پُورا کرنے،خُدا سے دُعا کرنے اور بابئل مُقدس کا مُطالعہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اِس باب میں آپ اصلاحی تھیالوجی کی ابتدا کا مُطالعہ کریں گے۔ یہ پروٹسٹینٹ تعلیم کی بُنیاد کا ایک خاکہ ہے۔ اِس میں یسوع مسیح کو زندگی کے تمام حصوں میں خُداوند اور مالک مانا جاتا ہے۔ اِسے ہم نئے عہد نامے کی تعلیم کی طرف واپسی کا نام دیتے ہیں جو ایمان کے ذریعے فضل سے نجات پانے پر زور دیتی ہے۔ تاریخ میں خُدا نے بار بار اصلاح کا کام کیا تھا۔ جب کھبی کلیسیا پر کٹھن وقت آیا تو خُدا نے ہی کلیسیا اور پُوری دُنیا کو بحران میں سے نکالا اور اخلاقی ماحول فراہم کیا تھا۔
تحریک احیائے کلیسیا اور اصلاح میں نئی تعلیم کو ایمان کے ذریعے سے تازہ کیا گیا۔ اصلاح کی سوچ اور نظرئیہ اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انسانی زندگی کے ہر ایک پہلو کی بائبل مُقدس کے حوالے سے اصلاح کی جائے۔ انسانی کی جاری و ساری کاوشیں اور ادارے خُدا ہی کی طرف سے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں سولہویں، سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں ہونے والی سول گورنمنٹ، قوانین، مُطالعہِ تاریخ، ادب آرٹ اور سائنس میں بہت بڑی اصلاحات ہوئیں اور اِن اصلاح شُدہ اداروں کی تقلید پُوری دُنیا نے کی۔ دُنیا کا پُر شور مُطالبہ ہے کہ اِن سوالوں کا جواب صرف اور صرف بائبل مُقدس ہی دے سکتی ہے۔ ہمیں کیا پہش کرنا چاہئیے؟ بائبل مُقدس کی آج کل بہت زیادہ مُنادی کی جارہی ہے لیکن اِس کے لئے کوئی فریم ورک، اصول و ضوابط کے تحت بائبل مُقدس کی تعلیم نہیں دی جارہی ہے۔ کُچھ پتہ نہیں چلتا ہے کہ مُبلغ ہمیں کہاں سے کہاں لے کر جارہا ہے۔ اِس لئے کہ تمام مسیحیوں کو اِس کے بارے میں تعلیم اور تربیت نہیں دی جاتی ہے اور وہ نہیں جانتا ہوتا ہے کہ مذہبی تعلیم کے رجحان اُسے اِدھر اُدھر بھٹکا رہے ہیں۔

لیکن یہ بدل رہا ہے، پُوری دُنیا میں اصلاح کا عمل دوبارہ دُنیا میں ظاہر ہورہا ہے۔ ہم وقت کی واضح آواز سُن رہے ہیں، خُدا پنی فوج کی صف آرائی کر رہا ہے طبلِ جنگ کی آواز واضح طور پر سُنی اور سمجھی جا سکتی ہے۔ یہ باب آپ کو اصلاح کی سوچ کی بُنیادی باتوں کے مُتعلق آگاہ کرے گا اور راہ راست کی طرف راغب کرے گا۔ خُدا آپ کو کلیسیا اور پُوری قوم کی قیادت کے لئے استعمال کرے گا تاکہ آپ کلیسیا کو روحانی طور پر بیدار کر سکیں۔

کِن نکات پر پروٹسٹینٹ اور رومن کیتھولک کو اتفاق کرنا چاہئیے

یہ بات بہت مضحکہ خیز ہے لیکن پروٹسٹینٹ کی رومن کیتھولک کی خلاف ایک مضبوط دلیل ہے۔ یہ دو سچ ہیں جن میں ہمیں رومن کیتھولک کے ساتھ مُتفق ہونا چاہئیے:
١) سولا سکرپچرا: ایک ہی کلام، بائبل مُقدس خُدا کا الہامی اور حتمی کلام ہے اِس کا مقصد ایمان اور پرستش ہے۔ بائبل مُقدس سب کے لئے ہے اور اِس پر صرف رومن کیتھولک کلیسیا، پوپ اور کلیسیائی تعلیم کا ہی حق نہیں ہے۔

٢) کیتھولک آرتھوڈکسی:صحیح العقیدہ کیتھولک: جس خُدا نے بائبل کی روح پھونکی ہے اُس نے تاریخ میں اِس لفظ صحیح العقیدہ کیتھولک کے معنی کو محفوظ کر دیا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ تمام مسیحیوں کو اِن چار بُنیادی عقائد پر مُتفق ہونا چاہئیے جو کہ درج ذیل ہیں
رسولوں کا عقیدہ، نقایہ کا عقیدہ، اتھناسین کا عقیدہ اور خِلقدون کا عقیدہ۔

کیتھولک کا لفظی مطلب ہے اتحاد یا عالمگیری یا کُل۔ پہلی سطح پر کیتھولک سے مُراد رومن کیتھولک کلیسیا دوسری سطح پر تمام لوگ جو مسیح پر ایمان لاتے ہیں۔ اِس طرح سے یسوع مسیح پر ایمان لانے والے تمام لوگ کیھولک ہیں کیوں کہ وہ ایک عالمگیر ایمان کے حامل ہیں۔
آرتھوڈکسی یعنی صحیح لعقیدہ ایک معنوں میں اِسے ٹھیک رائے کے لئے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اِس بائبلی تعلیم پر ابتدائی مسیحی عمل پیرا ہوئے تھے۔ آرتھوڈکسی کی بُنیاد یہ ہے کہ تمام عقائد پر ایک ہونا۔اوپر بیان کئے گئے دو عقائد مُتضاد نظر آتے ہیں مگر ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے ہیں۔ بائبل مُقدس خُود ہم تک نہیں پہنچی ہے اِسے نبیوں اور رسولوں نے لِکھ کر محفوظ کیا اور کلیسیا نے ایمانداری اور وفاداری سے اِسے ہم تک پہنچایا تھا۔ ہم اُس وقت تک بائبل کی شریعت کو قبول نہیں کرسکتے ہیں جب تک ہم کٹر کلیسیائی اختیار کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ جدید مُبشروں کو رومن کیتھولک عقیدہ سُننے کی عادت ہے اِس لئے یہ بُری بات ہے کہ عقائد کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور اِنہیں سِکھایا نہیں جاتا ہے۔ اگر ہم خود کو سچے مسیحی سمجھتے ہیں تو ہمیں خُود کو قبول کرنا چاہئیے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہئیے کہ بائبل کی سچائیوں کو وفاداری سے صدیوں سے محفوظ رکھا گیا ہے۔ بُنیادی گُناہ، پاک تثلیث، یسوع مسیح کی انسانی اور الوہی فطرتیں، اُسکا کنواری مریم سے پیدا ہونا، یسوع کی موت کفن دفن اور مُردوں میں سی جی اُٹھنا اور یوم ِ حساب، ابدی آسمان اور دوذخ۔ مُکٹصر یہ کہ پروٹسٹینٹ کو تاریخی آرتھوڈکس ہونے کے لحاظ سے مُتفق ہوناچاہئیے۔

پروٹسٹینٹ اور اصلاحِ کلیسیا کی تعلیم
پروٹسٹینٹ اور کیتھولک کے درمیان میں ہونے والی بحث و تمحیص بہت روشنی اور گرمجوشی پیدا کرتی ہے۔دو باتیں جن سے ہمارا تعلُق ہے وہ یہ ہیں کہ شروع میں رومن کیتھولک کلیسیا کے خیالات ٹھیک تھے جو ہم سے مختلف ہیں۔ جب ہم اختلاف کرتے ہیں تو روح اِس بات کی گواہی دیتا ہے۔ سن ١٥٠٠ میں پروٹسٹینٹ اصلاح کلیسیا کے راہنماؤں پر بہت بڑے اور شدید حملے ہوئے تھے اور یہ حملے رومن کیتھولک کلیسیا نے کروائے تھے جبکہ کبھی کبھی وہ اِن کا جواب روح القدس سے دیتے تھے۔ تاہم پُوری تاریخ میں پروٹسٹینٹ اکثر روح القُدس سے بھرے ہوتے اور خُدا کے ساتھ چلتے تھے اور کیتھولک اِس سے مُتفق نہ تھے۔ اِس لئے اب ہمیں ضرورت ہے کہ آج ہم اِس روح کا مُظاہرہ کریں۔
آر۔ جے رش ڈونی ایک مسیحی لِکھاری ماہر علمِ الہیات ہے جس نے کہا کہ جب ہم کِسی حد تک مسیحی ہیں تو ہمیں انجیل کا وفادار ہونا چاہئیے خواہ ہم آرمینین ہیں،رومن کیتھولک یا جو کوئی بھی ہیں۔ ہم اپنے آپ میں بڑے ہوتے ہیں لیکن اگر ہم سچے دل سے خُداوند کی خدمت کرتے ہیں تو ہم ایمان میں بڑے ہوتے ہیں۔ یہی انجیل کا جلال اور حشمت ہے۔ یہ بات ہمیں اِس قابل بناتی ہے کہ ہم اپنی بساط سے زیادہ کا م کریں۔ یہ خُدا کا فضل ہوتا ہے جو ہمارےاندر کام کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم طرح طرح کی اناجیل کو پیش کرتے ہیں بلکہ ہم ایک ہی انجیل کی مُنادی کرتے ہیں۔ گو یہ کام لِپٹا ہوا، محدو یا جُزوی ہوسکتا ہے لیکن یہ سارا کُچھ ایک ہی ہے ہم سب ایک ہی ہیں اور خُدا ہمیں استعمال میں لا سکتا ہے۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ ہم ایک ہی تاریخ کو پڑھتے ہیں۔ مختلف اوقات اور صدیوں میں وہ ایک دوسرے سے جُدا ہوگئے۔ جب ١٥٠٠ کے پروٹسٹینٹ کے اصلاح کار نے اِس بات پر زور دیا کہ ہر اعمل کا جواز صرف ایمان ہے۔ عالمگیر کہانت صرف پاک کلام کا اختیار ہونا چاہئیے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ مسیحی صرف انفرادی کیتھولک کلیسیا میں مُقدسین پر اکتفا کرکے اپنے ایمان کو بالائے تاک رکھ دیں۔

آگسٹین
پروٹسٹینٹ آگسٹین کے بہت مشکور ہیں۔ پروٹسٹینٹ صلاح کاروں کی تھیالوجی آگسٹینین تھی جس کے لئے خاص طور پر سوٹریالوجی کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی۔ ماٹن لوتھر ایک آگسٹین راہب تھا جو بعد میں تبدیل ہوگیا۔ لوتھر اور جان کیلون نے مرضی کا غُلام ہونا، تقدیر کا چُناؤ اور ایمان سے بچ جانے کے خیالات آگسٹین سے مستعار لئے تھے۔ آگسٹین نے آبائے کلیسیا طرطولین اور سائرین امبروز کے گُناہ کے ابتدائی تعلیم دی تھی۔ جس کے مُطابق گُناہ پہلے انسان آدم سے ہم میں مُنتقل ہوگیا تھا۔ اِس طرح پُوری نسلِ انسانی گُناہ کے داغ سے آلودہ ہوگئی تھی۔ اِس گُناہ کی جڑ غرور ہے۔ انسانی خواہش انسان کی مرضی کو پُورا کرتی ہے اور خپدا کی مرضی کو پسِ پُشت ڈال دیتی ہے۔ غرورہ کے گُناہ کی سزا موت تھی۔ آدم کی شخصیت میں بگاڑ پیدا ہوا اور اِسی طرح ہم میں بگاڑ پیدا ہوا۔ آزاد مرضی خُدا کی پیدا کردہ ہے اِس کو استعمال کرتے ہوئے جان بُوجھ کر آدم گُناہ کا مُرتکب ہوا۔ اِس گُناہ کے سبب سے وہ خُدا کے سامنے کھڑا نہ ہوسکا۔ آگسٹین نے لِکھا ہے ہماری فطرت مُکمل طور پر تباہ ہو گئی اور تباہ کرنے والے (شیطان) کی ملکیت بن گئے اور اِس سے کِسی نے نجات نہ پائی اور نہ کوئی آئندہ حاصل کرے گا سوائے خُدا کے فضل کی نجات سے۔ دوسری طرف کلیسیا کی اصلاح کاروں مثلاً لوتھر اور کیلون نے بائبل کے مُطالعہ اور آبائی کلیسیا کی تحریروں سے کلیسیائی تعلیم کا کھوج لگایا۔ اُنہوں نے دیکھا کہ آگسٹین مسیح میں سولا سکرپچرا بہت مشہور تعلیم تھی۔ اُنہوں نے اِس بات کو معلوم کیا کہ آرتھوڈکسی کیتھولک نے اُن میں بہت سا اضافہ کیا جو بائبل کے مُطابق ٹھیک نہیں ہے۔ پروٹسٹینٹ اصلاح کاروں نے اپنے نام کی طرح کلیسیا کی اصلاح کی یعنی اُن کو اصل کلیسیائی تعلیم کی طرف لے کر آئے۔ ماٹرن لوتھر، جان کیلون، زونگلی، ناکس،ڈینڈیل، پریٹانز نے اصلاح لی۔ وہ کیتھولک کلیسیا کے خلاف بغاوت نہیں تھی البتہ اپنی اقوام، کلیسیا بلکہ اصل کیتھولک ایمان کی طرف واپسی اور روم سے علیحدگی تھی۔ اُنہوں نے اپنے موقف کے لئے کلامِ مُقدس اور تاریخ سے ٹھوس ثبوت پیش کئے۔ اُن کی اصلاح نے بائل کی اصل تعلیم کو بحال کیا۔ پروٹسٹینٹ چار بُنیادی عقیدوں سے مُنسلک ہوگئے: مُقدس آگسٹن، اورنج کی کونسل، دوسری کونسلیں اور تیسری قسطنطیہ کونسل( بعد میں اِس کی وضاحت کِلقدون میں کر دی گئی تھی)۔ اِس کے بعد قسطنطیہ کی سِنڈ( اِس میں مُتنازعہ عقیدوں پر بحث و تمحیض ہوئی)۔

آگسٹن یہ نہیں سِکھاتا کہ انسان کی آزادی مُکمل طور پر مِٹ جاتی ہے وہ کہتا ہے انسان اِس حد تک آزاد ہے کہ وہ صرف گُناہ کر سکے۔ اِس کو مرضی کی غُلامی کی تعلیم کہتے ہیں۔ مرضی کے غپلام ہونے کے سبب آدم کی تمام اولاد گُناہ اور موت کی غُلام بن گئی۔ یہ تعلیم ہماری نااہلیت کو ظاہر کرتی ہے کہ ہم مُکمل طور پر خُدا کی طرف رجوع نہیں لا سکتے ہیں۔ انسان اِس کی اصلاح کی کوشش کر سکتا ہے لیکن ابدی زندگی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ اگر انسان کی آزاد مرضی ہر پہلو سے آزاد ہے تو وہ خُدا کی مرضی کو پُورا کرنے کے لئے نا اہل ہے اِس لئے وہ ہمیشہ بغاوت اور موت کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ تاہم خُدا کے فضل اور رحم سے کُچھ کو ابدی زندگی اور نجات مِل سکتی ہے۔ ہم خُدا کے ( عمل) رحم سے ابدی لعنت سے بچ سکتے ہیں اور نئی پیدائش کا تجربہ کرسکتے ہیں۔

آگسٹ انتحابات کی تعلیم پر یقین رکھتا ہے کہ صرف وہی بچیں گے جن کی تقدیر میں نجات نجات لِکھی ہے۔ صرف چند مُنتخب ہی بچیں گے۔ اگرچہ وہ گُناہ میں گِر سکتے ہیں وہ پچھتائیں گے اور ایمان سے بچ جائیں گے۔ آگسٹن سخت گُناہوں کی تعلیم پر یقین رکھتا تھا اور وہ کہتا تھا کہ اُنہیں دوزخ میں ضرور سزا مِلے گی۔ مارٹن لوتھر اور جان کیلون نے اِس تعلیم کی اصلاح کی اور جاری رکھا۔

آگسٹن کی کتاب (خُدا کا شہر) سے سن ٤١٠عیسوی
ہم نے یہ نسل دو حصوں میں تقسیم کی ہوئی ہے۔ ایک وہ ہیں جو انسان کے رہتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو خُدا کے مُطابق رہتے ہیں۔ تصوف میں ہم اِنہیں دو شہر کہتے ہیں یا انسانوں کے دو طبقے، ایک طبقہ کی قسمت میں خُدا کے ساتھ ابدی حکومت کرنا اور دوسرا شیطان کے ساتھ ابدی سزا پائے گا۔ یہ دو نسلیں پہلے والدین سے تعلُق رکھتی ہیں۔؛ قائن جو نسلِ انسانی کا پہلوٹھا ہے وہ انسان کے شہر سے تعلُق رکھتا ہے۔ اِس کے بعد ہابل پیدا ہوا جو کہ خُدا کے شہر سے تعلُق رکھتا ہے۔ یہ دونوں شہر ساتھ ساتھ چلتے رہے اور اِن کے ساتھ موت اور پیدائش کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اِس دُنیا کا شہری پہلوٹھا تھا بعد میں اِس دُنیا میں اجنبی بن گیا۔ خُدا کے شہر کے باسی کی قسمت میں فضل تھا۔ فضل سے اُس کا چُناؤ ہُوا اور فضل کے طُفیل نیچے( یعنی زمین) پر اجنبی ہوا۔ اور اُس فضل کے طُفیل سے اوپر ( آسمان) کا شہری بنا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ایک ہی چشمہ سے پھوٹے اور دونوں کا ماں اور باپ ایک ہی تھے۔ ابتدا کے لحاظ سے کِسی کو ملعون نہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن خُدا ایک کُمہار کی مانند ہے( اِس مُوازنہ کو رسول بڑے تدبر سے کُمہار (خُدا) ایک ہی مٹی سے لیتا ہےاور برتن بناتا ہے۔ کِسی کو عزت اور کِسی کو ذلت مِلتی ہے۔۔۔دُنیا کی پیدائش سے پہلے کلیسیا کو چُنا گیا اور کلیسیا کے بارے میں یہ کہا گیا کہ خُدا جانتا ہے کہ یہ اُس کی ہیں۔ شیطان اُنہیں گُمراہ نہیں کرے گا۔۔۔لیکن دونوں کو خواہ یہودی ہوں یا غیر قوم خُدا نے اُنہیں پہلے ہی چُن لیا ہے۔ اُن کو جلال حاصل ہوا اور خُدا اُنہیں کبھی لعن طعن نہیں کرے گا۔۔۔لیکن ہم اِن کے بارے میں کُچھ نہیں کہہ سکتے کہ خُدا اِنہیں کیا دے گا جن اُس نے پیشتر ہی چُن لیا اُس نے اُنہیں ہی چیزیں عنایت کی ہیں جن کے لئے موت لِکھی ہے۔

اورنج کی کونسل
پروٹسٹینٹ دیکھتے ہیں ٥٢٩کی اورنج کونسل میں کیتھولک کلیسیا کلیسیائی تعلیم پر کِتنا زیادہ یقین کرتے تھے۔ بعد میں لوتھر اور کیلون نے بھی اِس تعلم کی مُنادی کی۔ اورنج کی کونسل میں آگسٹن اور پلاغیس میں بہت بحت و تمحیض ہوئی۔

یہ بحث و تمحیض اِس نتیجہ پر پہنچی کہ انسان اپنی نجات کے لئے کِتنا ذمہ دار ہے اور اِس میں خُدا کے فضل کا کِتنا کردار ہے۔ پلاغیس نقطہ نظر کے حامل اِس بات کے قائل ہیں کہ اںسان بے گُناہی کی حالت میں پیدا ہوتا ہے اِس لئے نہ اُس میں گُناہ اور نہ ہی گُناہ کی فطرت ہے۔ اِس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بے گُناہی کی حالت ہی کامل زندگی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اورنج کی کونسل نے نیم پلاغیس خیالات پر بحث کی کہ انسان کی فطرت گُناہ آلودہ ہے لیکن خُدا کے فضل سے ہم نیک کام کرتے ہیں تو یہ اچھی ہوتی ہے۔ کینن آف کونسل آف اورنج آگسٹن کے اِن خیالات سے اختلاف کرتی ہے اور پیشگی آزمائشی مُدت کی غلطی ثابت کرتی ہے۔ جیسیا کہ ہم کینن آف کونسل آف اورنج میں پڑھتے ہیں تو جان جائیں گے کہ مارٹن لوتھر اور جان کیلون کے یہ خیلاتکہ انسان کی مُکمل محرومی نیت کا اسیر ہونا اور گُناہ گار کی قبولیت صرف ایمان سے ہو۔

کیننز آف کونسل آگ اورنج سن٥٢٩
کینن نمبر ١: اگر کوئی اِس بات کا انکار کرتا ہے کہ انسان جسم اور روح سے کامل انسان بنتا ہے اور یہ آدم کے گُناہ سے بدی میں تبدیل ہوگئی۔ اِس طرح یہ یقین کرتا ہے اِس کے باوجود وہ آزاد اور محفوظ رہتا ہے۔ اور جسم ہی بدعنوانی ( بُرائی) کا مُرتکب ہوتا ہے۔ یہ پاغیس کی غلطی ہے اور مُتضاد تصویر پیش کرتی ہے
جو جان گُناہ کرتی ہے وہی مرے گی (حزقی ایل ١٨ باب کی ٢٠ آیت)۔
کیا تُم نہیں جانتے کہ جس کی فرمانبرداری کے لئے خود کو غُلاموں کی طرح حوالے کر دیتے ہو اُسی کے غُلام ہو جِس کے فرمانبردار ہو ( رومیوں ٦ باب کی ١٦ آیت)۔

وہ اُن سے جو آزادی کا وعدہ کرتے ہیں آپ خرابی کے غُلام بنے ہوئے ہیں (٢پطرس ٢ باب ٢٩ آیت)۔

کینن نمبر٢: اگر کوئی یہ پُرو زور دعوی کرتا ہے کہ آدم کا گُناہ صرف اُسی کو مُتاثر کرتا ہے اِس ساری اولاد کو نہیں یا کم ازکم یہ کہتا ہے کہ صرف جسم کی موت ہوتی ہے اور یہ گُناہ کی سزا ہے۔ اور یہ گُناہ وہ گُناہ نہیں جس سے روح کی موت ہوتی ہے جو ایک انسان سے پُوری انسانی نسل میں مُنتقل ہوگئی۔

پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یہ موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گُناہ کیا (رومیوں ٥ باب کی ١٢ آیت)۔

کینن نمبر٣: اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ انسان دُعا کے بدلے خُدا کا فضل حاصل کر سکتا ہے تو خُدا کا فضل خُود ہم سے دُعا نہیں کرواتا ہے۔ وہ یسعیاہ نبی یا پولوس رسول کے اُلٹ بات کرتا ہے جنہوں نے مُجھے نہیں ڈھونڈا اُنہوں نے مُجھے پا لیا اور جہنوں نے مُجھ سے نہیں پُوچھا اُس پر ظاہر ہوگیا (رومیوں ١٠ باب کی ١٢ آیت اور یعسیاہ ٦٥ باب کی ١ آیت)۔
کینن نمبر ٤: اگر کوئی یہ دعوی قائم کرتا ہے کہ خُدا ہماری مرضی کو گُناہوں سے پاک کرے گا اور گُناہوں کا اعتراف نہیں کرتا۔ جب تک کہ ہماری مرضی روح القُدس کے کاموں کے ذریعے ہمارے اندر کو پاک نہیں کر دیتی تو وہ (خُدا) روح القدس کو روکتا ہے۔

جو تُم میں نیت اور عمل دونوں کو اپنے ارادہ کو انجام دینے کے لئے پیدا کرتا ہے وہ خُدا ہے (فلپیوں ٢ باب کی ١٣ آیت)۔

کینن نمبر٥: اگر کوئی یہ کہتا کہ نہ صرف ایمان بڑھانے بلکہ اِس کے آغاز اور پہلی خواہش پر ہم یقین اور ایمن رکھتے ہیں۔ وہ اِس سے ہماری غیر الوہی کا جواز مانگتاہے اور وہ ہماری نئی پیدائش کے پاک بپتسمہ میں آتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ ہماری فطرت دے تعلُق رکھتا ہے اور فضل کا تحفہ نہیں ہے یہ روح القُدس کی تحریک ہے جو ہماری مرضی اور نیت کو دُرست کرتی ہے۔ یہ بے یقینی کو ایمان اور مادی کو روحانی میں تبدیل کرتی ہے۔ پولوس کہتا ہے کہ یہ رسولوں کہ تعلیم کے اُلٹ ہے۔

مُجھے اِس بات کا بھروسہ ہے کہ جِس نے تُم میں نیک کام شروع کیا وہ اِسے یسوع مسیح کے دن تک پُورا کرے گا (فلپیوں ١ باب کی ٦ آیت)۔
کیونکہ تُم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل سے نجات مِلی ہے اور یہ تُمارہ طرفے سے نہیں خُدا کی بخشش ہے (افسیوں ٣ باب کی ٨ آیت)۔
اُن لوگوںں کے لئے جو کہتے ہیں کہ جو ایمان ہم خُدا پرر رکھتے ہیں فطری ہے اور اُن کی خُدا کی کلیسیا سےخاص تعریفی حدود باندھ کر الگ کردیتا ہے۔

کینن نمبر٦: اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ خُدا ہم پر فضل سے ہٹ کر رحم کرتا ہے۔ ہم ایمان رکھتے ہیں، نیت کرتے ہیں،کوشش کرتے ہیں سخت محنت کرے ہیں، نگہبانی کرتے ، ڈھونڈتے ہیں یا دورازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔۔۔۔لیکن گُناہ کا اعتراف نہیں۔ یہ بات ہمارے روح پاک کی تخریک سے ہوتی ہے۔ ہم یقین کرتے ہیں کہ ہماری نیت اور قوت ہی ہے جو یہ کہتی ہے کہ نہیں کرنا چاہئیے۔ اگر کوئی خُدا کے فضل کی مدد سے حلیمی یا انسانی فرمانبرداری پر انحصار کرتا ہے اور اِس بات پر اتفاق نہیں کرتا کہ یہ خود فضل کا تحفہ ہے تو وہ پولوس رسول کے مُتضاد ہے۔ وہ لِکھتا ہے:
کون سی ایسی چیز ہے جو تُو نے دوسروں سے نہیں پائی (١کرنتھیوں ٤ باب ٧ آیت)

جو کُچھ ہوں خُدا کے فضل سے ہوں (١کرنتھیوں ١٥ باب ١٠ آیت)

کینن نمبر ٧: اگر کوئی یہ دعوی کرتا ہے کہ نجات کے بارے میں وہ صحیح رائے دے سکتا ہے یا صحیح انتخاب کرسکتا ہے تو یہ ہمارے لئے مصلحت ہے یا ہم بچائے جاسکتے ہیں یا ہمیں روح کی تخریک اور روشنی کی قوت کے بغیر مُنادی کرنے کی منظوری مل جاتی ہے۔ کون ہمیں سچائی پر یقین کرنے اور مُنادی کی منظوری دیتا ہے۔ یہ باتیں اِسے بدعت کی جانب لے جاتیں ہیں کہ جو خُدا کی آواز نہ سُنتا اور نہ سمجھتا ہے انجیل میں اُس کے لئے یوں بیان ہے:

مُجھ سے جُد ہوکے تُم کُچھ نہیں کرسکتے (یوحنا ١٥ باب کی ٥ آیت)
یہ نہیں کہ بذاتِ خود ہم اِس لائق ہیں کہ اپنی طرف سے کُچھ خیال بھی کر سکیں بلکہ ہماری لیاقت خُدا کی طرف سے ہے ( ٢کرنتھیوں ٣ باب ٥ آیت)
کینن نمبر٨: اگر ہم سے کوئی یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ بپتسمہ کے فضل سے رحم کے قابل ہوئے ہیں اور دوسرے آزاد مرضی۔ کون بدعنوانی کا مُظاہرہ کررہے ہیں۔۔۔یہ وہ ہیں جو پہلے انسان (آدم) کے گُناہ میں پیدا ہوئے۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اُس میں سچے ایمان کی کوئی جگہ نہیں۔ وہ انکار کرتا ہے کہ پہلے آدم کے گُناہ سے انسان کی آزاد مرضی میں کمزوری آگئی یا کم از کم اِس نے اِس پر اِس طرح سے اثر کیا کہ اُن میں اب بھی یہ صلاحیت ہے کہ ابدی نجات کے راز کو خُدا کے مُکاشفہ کے بغیر خُود تلاش کر سکیں۔ خُدا اِس بیان کو یہ کہہ کر مُتضاد قرار دیتا ہے کہ: کوئی بھی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جس نے مُجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لے (یوحنا ٦ باب کی ٤٤آیت)

یسوع خُود پطرس کو کہتا ہے :

مُبارک ہے تُو شمعون بریونا کیونکہ یہ بات گوشت اور خون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تُجھ پر ظاہر کی(متی ١٦ باب کی ١٧ آیت)۔

اور پھر پولوس رسول کہتا ہے:

اور نہ کوئی روح القدس کے بغیر کہہ سکتا ہے کہ یسوع خُداوند ہے (١کرنتھیوں١٢ باب کی ٣ آیت)

کینن نمبر ٩: خُدا کی مدد کے تعلق سے یہ خُدا کی مہربانی کا نشان ہوتا ہے جب ہم نیک قاصد لئے ہوئے ،ریا کاری کے بغیر کام کرتے ہیں۔ خُدا ہم میں کام کر رہا ہوتا ہے اِس لئے ہمیں ایسے عمال کرنے چاہئیے۔

کینن نمبر١٠: خُدا کی مدد کے حوالے سے: خُدا کی مدد ہمیشہ طلب کرنی چاہئیے۔ اِسے دوبارہ پیدا کرنا اور بدلنا چاہئیے تاکہ وہ کامیاب نتیجہ پر پہنچے اور اپنے عمال کو محفوظ کر سکیں۔

کینن نمبر١١: دُعا کرنے کے فرض کے حوالے سے: کوئی شخص بھی ایسی دُعا نہیں کرسکتا ہے جس کے کرنے سے ہم اُس کا پھل پا سکیں بلکہ:
سب چیزیں تیری طرف سے مِلتی ہیں اور تیری ہی چیزوں میں سے ہم نے تُجھے دیا (١تواریخ ٢٩ باب کی ١٤ آیت)

کینن نمبر١٢: ہم ہیں کون جس سے خُدا محبت کرتا ہے؟ یہ خُدا کی طرف سے تحفہ ہے کہ خُدا ہم سے محبت کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم اِس محبت کے حقدار ہیں۔

کیننن نمبر ١٣: آزاد مرضی کی بحالی کے حوالے سے: پہلے آدم کے گُناہ کی وجہ سے جو آزاد مرضی ختم ہوگئی تھی وہ بپتسمہ کے فضل سے بحال کی جاسکتی ہے۔ یہ آزاد مرضی وہ ہی دے سکتا ہے جو ایسا کرنے کا اہل ہو۔ سچائی خُود علان کرتی ہے:

پس اگر بیٹا تُمہیں آزاد کرے گا تو تُم واقعی آزاد ہوگے (یوحنا ٨ باب کی ٣٦ آیت)

کینن نمبر ١٤: غم اور اُداسی کی حالت سے کوئی بھی آزاد نہیں البتہ جس کو خُدا نے بچا لیا اُس پر اُس کی رحمت اور شفقت ہوتی ہے۔ زبور نویس لِکھتا ہے:

تیری رحمت جلد ہم تک پہنچے (زبور ٧٩ کی ٨ آیت)
میرا خُدا اپنی شفقت سے میرا پیشرو ہوگا (زبور ٥٩ کی ١٠آیت)

کینن نمبر ١٥: آدم بدل گیا: سب سے بُری بات یہ ہوئی اُس نے خُدا کا مخلوق ہوتے ہوئے خُود سے ہی نا انصافی کردی۔ وہ خُدا کے فضل کے وسیلے سے بدل جاتا ہے۔ جو فضل اُس نے کیا ہوتا ہے اُس میں بہتری آتی ہے۔ اِس لئے پہلا گُناہ گار بدل جاتا ہے۔ زبور نویس کے مُطابق:
یہ حق تعلی کی قُدرت ہی سے ہوتا ہے (زبور٧٧ کی ١٠ آیت)۔

کینن نمبر ١٦: کِسی آدمی کو اُس کی حاصلات( کامیابی) سے عزت نہیں مِلتی بلکہ یہ تو خپدا کے تحائف ہیں۔ یا پھر فرض کرلیں کہ اُس کو خُدا کی طرف سے تحریری اور گُفتاری پیغام مِلا ہے۔ پولوس رسول کہتا ہے:
کیونکہ راستبازی اگر شریعت کے وسیلہ سے مِلتی تو مسیح کا مرنا عبث ہوتا (گلتیوں ٢ باب کی ٢١آیت)

جب وہ عالمِ بالا پر چڑھا تو قیدیوں کو ساتھ لے گیا اور آدمیوں کو انعام دئیے( افسیوں ٤ باب کی ٨ آیت بحوالہ زبور٦٨ کی ١٨ آیت)۔

یہ اِس وسیلہ سے ہوا کیونکہ یہ کِسی آدمی نے نہیں کیا۔ اگر کوئی اِس ذریعہ سے حاصل کرتا ہے تو بھی درحقیقت اُسے حاصل نہیں کرتا۔
جس کے پاس نہیں ہے اُس سے وہ بھی جو اُس کے پاس ہے لے لیا جائے گا (متی٢٥ آیت کی ٢٩ آیت)۔

کینن نمبر١٧: مسیحی جُرات کے حوالہ سے: غیر قوموں میں جُرات لالچ کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن مسیحیوں میں یہ خُدا کی محبت سے پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ محبت اُن کے دل میں اُڈیلی جاتی ہے۔ اپنی طرف سے آزاد مرضی سے نہیں بلکہ تُمہیں روح پاک سے حاصل ہوتی ہے۔

کینن نمبر ١٨: فضل کسی خوبی یا صلاحیت کی وجہ سے نہیں مِلتا ہے بلکہ یہ اُس وقت مِل سکتا ہے جب کوئی نیک عمال کرے۔ اِس کو پانے کے لئے ہم دعوی نہیں کرسکتے ہیں۔

کینن نمبر١٩: انسان اُس وقت بچ سکتا ہے جب خُدا اپنا رحم دِکھائے۔ انسانی فطرت اُسی حالت میں رہتی ہے جس حالت میں پیدا کی جاتی ہے۔ یہ اپنے خالق کی مرضی دے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ اِس لئے انسان خُدا کے فضل کے بغیر نجات کا تحفظ حاصل نہیں کرسکتا۔

کینن نمبر٢٠: انسان خُدا کے بغیر کُچھ نہیں کر سکتا ہے لیکن خُدا انسان کے لئے بہت کُچھ کر سکتا ہے جبکہ انسان کُچھ بھی نہیں کرسکتا ہے۔ جس چیز کا خُدا ذمہ دار ہے انسان اُس کے لئے کُچھ نہیں کرسکتا اِس لئے خُدا ہی کو کرنے دو۔

کینن نمبر ٢١: فطرت اور فضل کے حوالہ سے: پولوس رسول بالکُل ٹھیک کہتا ہے کہ جو شریعت کو مانتا ہے وہ فضل میں نیچے گِرتا ہے۔
کیونکہ راستبازی اگر شریعت کے وسیلہ سے مِلتی تو مسیح کا مرنا عبث ہوتا ( گلتیوں ٢ باب کی ٢١ آیت)۔

اِس لئے جو سچ مُچ فضل پر یقین رکھتے ہیں یسوع مسیح اُن کی وکالت کرتا ہے اور جاری رکھتا ہے یہی فطرت ہے۔ راستبازی اگر فطرت کے وسیلہ سے مِلتی تو مسیح کا مرنا عبث ہوتا۔ اب حقیتاً ایسی شریعت ہے جو راستباز ٹھہرتی ہے اُس میں فطرت جو کہ راستباز نہیں ٹھہراتی ہے اِس لئے مسیح بے مقصد نہیں موا۔ وہ اِس لئے موا تاکہ شریعت پُوری ہوسکے، وہ خُود کہتا ہے :

یہ نہ سمجھو کہ توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے کے لئے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پُورا کرنے آیا ہوں (متی ٥ باب کی ١٧ آیت)۔
اور جو فطرت گُناہ کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھی اُسے بحال کرے۔ وہ کہتا ہے کہ:

میں کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہوں (لوقا ١٩ باب کی ١٠آیت)۔

کینن نمبر ٢٢: اُن چیزوں کے حوالے سے جن کا تعلُق انسان سے ہے۔ انسان کے پاس کوئی اپنی کوئی چیز نہیں ہے البتہ گُناہ اور ناراستی اُسکی ملکیت ہیں۔ لیکن اگر انسان میں کوئی راستبازی یا سچائی ہے تو وہ کِس چشمہ سے پھُوٹتی ہے؟ تا کہ ہم اِس زندگی کے صحرا میں پیاس بُجھا سکیں اور اِن قطروں سے تازہ دم ہوسکیں تاکہ ہم راستے میں ہی بے ہوش نہ ہوجائیں۔

کینن نمبر٢٣: انسان اور خُدا کی مرضی کے حوالے سے: انسان اپنی مرضی پُوری کرتا ہے لیکن خُدا کی مرضی کو پُورا نہیں کرتا ہے۔ جن انسان وہ کام کرے جن سے خُدا نا خُوش ہوتا ہے تو وہ اپنی مرضی کو پُورا کر رہا ہوتا ہے۔ وہ خُدا کی مرضی اور خُواہش کے مُطابق کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن تو بھی کِسی حد تک خُدا ہی کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ ایسا کر رہے ہوتے ہیں۔

کینن نمبر ٢٤: انگور اور اُس کی ڈالیوں کے حوالوں سے: ڈالیاں انگور کو زندگی نہیں دیتی بلکہ وہ اُن سے وصول کرتیں ہیں۔ اِس طرح سے انگور کا تعلُق ڈالیوں سے ہے، وہ اِس طرح سے وہ اُنہیں اُس کی ضرورت کی مُطابق مُہیا کرتا ہے، وہ اُن سے نہیں لیتا ہے۔ اِس طرح اُس کے شاگردوں کو اُس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ مسیح میں قائم رہتے ہیں۔

اگر ڈالیاں کاٹ دی جائیں تو جڑ سے پھر تنا کل آتا ہے لیکن ڈالیاں جڑ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں ہیں (یوحنا ٥ باب کی ٥ آیت)

کینن نمبر ٢٥: اُس محبت کے حوالے سے جس میں ہم خُدا سے محبت کرتے ہیں: خُدا سے محبت کرنا خُدا ہی کا ایک کامل تحفہ ہے۔ جو محبت کرتا ہے اُس سے محبت نہیں کی جاتی۔

وہ چاہےا ہے کہ اُس سے محبت کی جائے ۔ جب ہم اُسے ناخوش کرتے ہیں تو بھی وہ ہم سے محبت کرتا ہے تاکہ ہم اُس سے محبت کا کوئی ذریعہ ڈھونڈ سکیں۔

خُدا کی محبت ہمارے دلوں میں ڈالی گئی ہے اور اِسی محبت سے ہم خُدا باپ اور بیٹے سے محبت کرتے ہیں۔

نتیجہ:اوپر بیان کئے گئے پاک کلام کے وہ حوالے اور اقتباسات ہیں جن کے مُطابق آبائے کلیسیا نے خُدا اور یسوع مسیح کی مُنادی کی تھی۔ یہ سب اُنہوں نے خُدا کے رحم اور برکت سے کیا۔

پہلے انسان کے گُناہ نے آزاد مرضی کو اتنا نقصان پہنچایا اور کمزور کیا تھا کہ کوئی بھی خُدا سے اتنی محبت نہ کرسکا جتنی محبت اور جتنے ایمان کے ساتھ اُس سے کی جانی چاہئیے تھی۔ یہ اُس وقت ایسا ہوا تھا جب تک خُدا کا فضل نہ ہوا تھا۔

ہم یقین کرتے ہیں کہ جو عظیم الشان ایمان ہابل، نوح، ابراہام، اضحاق، یعقوب اور دیگر مُقدسین کو دیا گیا تھا اُس کے حق میں پولوس رسول نے عبرانیوں ١١ باب میں بہت زیادہ تعریف کی ہے ۔ اُنہیں یہ ایمان فطری اچھائی سے نہیں مِلا یہ آدم سے پہلے تھا اور اُنہیں یہ خُدا کے فضل سے عطا ہوا تھا۔ ہم یہ جانتے اور ایمان رکھتے ہیں کہ جب یسوع مسیح آئے گا تو اُن کی آزاد مرضی میں فضل نہیں پایا جائے گا۔ لیکن جو بپتسمہ کی خواہش کرتے ہیں اُنہیں مسیح کی شفقت سے عطا ہوگا۔ اِس کے بارے پولوس رسول کہتا ہے :

کیونکہ مسیح کی خاطر تُم پر فضل ہوا کہ نہ فقط اُس پر ایمان لاؤ بلکہ اُس کی خاطر دُکھ بھی سہو ( فلپیوں١ باب کی ٢٩ آیت)
پھر وہ یہ بھی کہتا ہے کہ:

کیونکہ تُم کوایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات مِلی ہے۔ یہ تُمہاری طرف سے نہیں خُدا کی بخشش ہے ( افسیوں ٢باب کی ٨ آیت)
خُداوند کی طرف سے مُجھ پر رحم ہوا۔

وہ یہ نہیں کہتا کیونکہ میں ایماندار نہیں تھا بلکہ ایماندار ہونا چاہتا ہوں۔
وہ پھر بیان کرتا ہے:

تیرے پاس کون سی ایسی چیز ہے جو تُو نے دوسروں سے نہیں پائی (١کرنتھیوں ٤ باب کی ٧آیت)

ہر اچھی بخشش اور ہر کامل ایمان اوپر سے ہے اور نوروں کے باپ کی طرف سے مِلتا ہے( یعقوب ١ باب کی ١٧ آیت)

پاک کلام میں بہت سے حوالے ہیں جو خُدا کے فضل کو ثابت کرتے ہیں لیکن پرہم اِنہیں اختصار کے ساتھ پیش کررہے ہیں۔ کیتھولک ایمان کے مُطابق ہم کہتے ہیں بپتسمہ میں خُدا کا فضل حاصل ہوتا ہے۔ ہر ایک بپتسمہ یافتہ شخص میں یہ خاصیت ہے اور یہ اُسکی ذمہ داری ہے کہ وہ مسیح کی مدد سے ایمان میں مشقت کرے اور روح کی نجات کے لئے ضروری اقدامات کرے۔ ہمارا ایمان یہ نہیں ہے کہ خُدا کی قوت سے ہم بُرائی کرنے کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔ اگر ہم نفرت کی بُری حالت میں گُناہ کرتے ہیں تو یہ ایک لعنت ہے۔

ہم یہ بھی یقین کرتے ہیں کہ ہر ایک چیز سے فائدہ ہوتا ہے۔ ہم وہ ہیں جو پہل کرتے ہیں اور خُدا کا رحم ہماری مدد کرتا ہے۔ خُدا کا روح ہمیں تحریک دیتا ہے کہ ہم ایمان لائیں اور اُسے پیار کریں۔ ہمارے پہلے والے عمال انعام کے حقدار نہیں ہیں۔ ہمیں ایمان کے تحت بپتسمہ کا ساکرامنٹ لینا چاہئیے۔ اِس کے بعد ہی ہم خُدا کو خُوش کر سکتے ہیں۔ اِس لئے ہمیں صلیب پر چڑھے ہوئے ڈاکو کی مانند پُختہ ایمان رکھنا چاہئیے جس سے یسوع نے کہا تھا کہ آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا۔ اور کُرنیلئس صوبہ دار کی طرح جس کے پاس خپدا کا فرشتہ بھیجا گیا تھا اور زکائی جو خُداوند کے استقبال کے لئے نکلا تھا اور پھر خُداوند اُس کے گھر میں آیا تھا۔ یہ انسانی کوشش نہیں بلکہ خُدا کی بخشش تھی۔

تصاویر اور مُجسموں کو توڑنے کا مُناقشہ:

کلیسیائی اصلاح کاروں کا ایک مُناقشہ نہ صرف مُقدسین کی شفاعت بلکہ اُن کی تصاویر اور مُجسموں تبرکات کی پرستش اور پُوجا بھی ہے۔ میں نے اِس بات میں دو دستاویزات کو شامل کیا ہے۔ تصاویر اور مُجسموں کی پرستش کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اِس کی بہت سی شاخیں اور اقسام ہیں جن میں کیتھولک کلیسیا میں کِسی نہ کِسی شکل کی بُت پرستی کی حمایت یا مُخالفت کرتی ہے۔ اِن تبرکات کو آٹھویں نویں صدی میں پروان چڑھایا گیا ۔کلیسیائی اصلاح کاروں نے اِس کی مُخالفت سولہویں صدی میں کی۔آٹھویں صدی کے شروع میں لیو سوم (جو مشرقی رومی سلطنت کا شہنشاہ تھا) نے تصاویر اور دیگر اشیا کی پُوجا پر حملہ کیا اور وہ مسیحیت میں پہلا بُت شکن تھا۔یسوع، مریم، اور دیگر پاک لوگ ( خواتین اور مردوں) کے نشانات(تبرکات) جو مجسموں کی پرستش کے مُعاونات کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ عام مسیحی پیش کی جانی والی صورت (تصاویر) ، مجسموں کی روحانی حقیقت کو سمجھے میں ناکام تھے۔ لیو سوم جب بہت سی فوجی ناکامیوں کے بعد کامیاب ہوا اور حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی تو اُس کی دورِ حکومت میں ایک بہت بڑا زلزلہ بھی آیا۔ لیو نے محسوس کیا کہ یہ زلزلہ خُدا کے انصاف ایک انداز ہے اِس لئے اُس نے مجسموں اورتصاویر پر حملہ کروایا۔ اُس کا ایمان تھا کہ بُت پرستی سے ہم خُدا کے حُکم کو توڑ رہے ہیں۔ لیو اور اُسکے پیش روؤں نے کِسی نہ کِسی انداز میں تصاویر اور مجسموں کی پوجا کے خلاف جنگ کی۔ ٧٥٣ عیسوی میں کانسنٹائن پنجم لیو کے بیٹے نے ایک سِنڈ بلوائی۔ ٣٣٨ بشپوں نے شرکت کی اور سوچ و بچار کے بعد یہ دستاویش تیار کی۔

کانسٹنٹین پال کی سِنڈ( ہیرا ٧٥٣)

جب کبھی اُن پر مسیح کی الوہی فطرت پر تصویر کشی کا الزام لگایا جاتا تھا تو وہ ُس غدر میں پناہ لیتے تھے کہ ہم تو صرف مسیح کے جسم کو پیش کررہے ہیں جو کہ دیکھا۔ یہ یونانی دیومالائی بادشاہ نسطورین کی طرح کی غلطی تھی( جس کو پتھر کی شکل و صورت میں پیش کیا جاتا تھا) یا) اِسے خُدا کا جسم ( گوشت) ہی سمجھنا چاہئیے یا کلام کی مُجسم صورت سمجھنی چاہئیے۔ کِسی علیحدگی کے بغیر یہ الوہی فطرت میں قائم رہتی اور کامل ہے۔ ہم اِسے الگ صورت میں پیش نہیں کرسکتے ہیں۔ کیا مسیح کی روح کے ساتھ بھی یہی عمل اپنانا چاہئیے جو خُدا کے بیٹے کا سر اور جسم کی بے کیف حالت کے درمیان ہے۔ جیسا انسان کا جسم ہے اِسی طرح کا خُدا کے کلمہ کا جسم ہے۔ جس طرح انسان کی روح اُسی خُدا کے کلمہ کی روح ہے ایک ہی وقت میں دونوں ایک ہیں۔ جس طرح روح کی پُوجا ہوتی ہے اِسی طرح جسم کی بھی۔ خُدا کا سر ( یسوع) ناقابلِ تقسیم رہتا ہے اِسی طرح روح کو جسم سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تو احمق خُدا کے سر کو جسم (گوشت) سے کیسے الگ کر سکتے ہیں؟ تو اِسے انسانی صورت میں کیوں دوبارہ پیش کیا گیا ہے؟
جب وہ جسم کو خُدا سے الگ کرتے ہیں تو وہ ناپاکی اور گُناہ کی دلدل میں گِر جاتے ہیں۔ اِس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اُس کی اپنی شخصیت جس کی صورت پر وہ مُجسمہ بنایا گیا تھا وہ اِس طرح سے پاک تثلیث میں ایک چوتھے شخص کو مُتعارف کرواتے ہیں مزید یہ کہ وہ اِس سے الوہی نہیں بنتے ہیں۔ وہ خُدا کے سر سے الوہی بنتے ہیں۔ اِس لئے جو کوئی مسیح کی صورت بناتا ہے وہ خُدا کے سر کی تصویر کشی کرتا ہے۔ اِس کی تصویر کشی نہیں ہوسکتی ہے اور وہ اِس کو خُدا سے مِلا دیتی ہے۔ وہ مسیح کے جسم کو پیش کرتےہیں لیکن الوہی نہیں مانتے ہیں اور اِنہیں الگ الگ مانتے ہیں جِس طرح کہ نسطورین کو انسان سے الگ کرتے ہیں۔

یسوع بطور انسان کی قابلِ قبول شکل: روٹی اور مے ہے جو اۃس نے آخری کھانے کے موقع پر لیں تھیں۔ اِس کے علاوہ کوئی بھی دوسری شکل یا قسم مُجسم کے طور پر پیش کی گئی تھی۔ ٣٥ سال بعد آئرین کانسٹنٹائن کے شاہی قائم مُقام نے ٣٥٠ بشپوں کی ایک اور کونسل بُلائی تھی جس اوپر بیان کی گئی دستاویز کو مُسترد کر دیا تھا۔ اُن کی غور و خوض کے نتائج یہ ہیں۔

نقایہ کونسل ( مسیحی دانشوروں کی ساتویں مجلس سن ٧٨٧)
ہم اپنے اعتراف کو چھوٹا کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہمارے کلیسیائی بُزرگوں کی غیر تبدیل شُدہ روایات زبانی یا تحریری شکل میں پہنچی ہیں۔ اُن میں سے ہمارے پاس تصاویری انداز کی دستاویز ہیں۔ انجیل کی تاریخ اور اِس کی مُنادی پر اتفاقِ رائے کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر خُدا کے کلمہ کے مُجسم ہونے کی روایات بہت مُفید ، حقیقی اور شاندار ہے۔ اِن میں باہمی اشارے بھی مِلتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اِس کی باہمی اہمیت بھی ہے۔ اِس لئے ہم شاہی راہ کی پیروی کر رہے ہیں اپنے نیک آبائے کلیسیا کے الوہی اختیار جو کیتھولک کلیسیا کی روایات ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں روح القُدس اُس میں سکونت پذیر ہے۔ وہ اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ بات معتبر اور تصدیق شُدہ ہے جیسا کہ صلیب کی تصویر حیات بخش ہے۔ یہ تصاویر قابلِ عزت و تعظیم ہیں، یہ پینٹنگ اور پچکاری کے قیمتی مواد سے تیار کی گئیں ہیں اِ لئے انہیں خُدا کے گھر میں رکھا جانا چاہئیے۔ اِسی طرح پاک ظروف، لباس، گھروں اور راستوں میں خُداوند خُدا ، خُداوند یسوع مسیح، بے داغ خُدا کی ماں مریم، مُقدس فرشتے، تُمام مُقدسین اور تمام نیک لوگوں کی تصاویر اور شبیہات لٹکانی چاہئیے۔ جتنا ماہرانہ اور فنکارانہ انداز میں اُن کو پیش کیا جائے گا اُتنا ہی زیادہ لوگ اُن کو اصل انداز میں دیکھیں گے ، ذہن اور تصور میں لائیں گے اور اُن کے لئے تڑپ محسوس کریں گے۔ انہیں حقیقی سلام، عزت اور اخترام دیا جانا چاہئیے۔ اُن کی حقیقی اور ایمان سے پرستش نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ یہ تو خُدا کے لئے ہیں لیکن اِن قیمتی تصاویر اور حیات بخش صلیب، اناجیل کی کُتب اور دیگر پاک چیزیں یعنی موم بتیاں، روشنی اور بخور وغیرہ کو دقیم نیک رسومات کے مُطابق عزت و تعظیم دی جانی چاہئیے۔ جو عزت و احترام اِس تصاویر کو دی جاتی ہے یہ اِن تصاویر میں مُنتقل ہو جاتی ہے اور جو اِ تصاویر کی عزت کرتا ہے وہ اِن اشخاص یا اشیا کی بھی عزت کرتا ہے۔

پروٹسٹینٹ ساتویں نقایہ کونسل سے اتفاق نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ سابقہ سِنڈ آف کانسنٹائن پال سے بالکُل مُختلف تھی جس میں مریم، مُقدسین اور فرشتگان کی باقیات اور مجسموں کے مُتعلق بتایا گیا تھا۔

قرون وسطی کے کیتھولک

سب سے حیرت انگیز نُقطہ یہ ہے کہ اگر کیتھولک مسیحیوں میں راسخ العقائد اور سخت قسم کی روایات تھیں تو روم والے کہاں پر غلطی کر رہے تھے۔ اختصار اور وضاحت دونوں کے لئے ہمیں دو باتوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں جاننا چاہئیے کہ تاریخ میں کلیسیا عقائد تعلیم پر کبھی مُتفق نہیں رہی۔ پہلی صدی سے ہی کلیسیا میں بہت سی بدعتیں پیدا ہوئیں۔ بدعتوں کے وجود سے ہمارا کوئی تعلُق نہیں کیونکہ خُدا نے ہمیشہ اُن کا خاتمہ کیا ہے۔ جیسا کہ اتھیناسس دُنیا کے خلاف ۔اگرچہ وہ تعداد میں بہت تھوارے تھے لیکن وہ اِن غلطیوں اور بُرائیوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ کیتھولک کلیسیا نے ابتدائی سالوں میں آرتھوڈکسی عقیدہِ کیتھولک قائم کیا۔ ہمارا مقصد اُن بدعتوں کے پھیلاؤ سے نہیں ہے بلکہ ہمیں ضرورت ہے کہ کیتھولک کلیسیا کے حکومتی ڈھانچے کو بھی جانیں۔ جب رومی شہنشاہ کانسٹنٹائن سن ٣٢٥ میں تبدیل ہو گیا اور اُس نے مسیحیت اختیار کر لی تھی تو آہستہ آہستہ اِس کا مرز روم شہر ہوگیا۔ اِس کا تعلُق ہم سے ہے بائبل مُقدس میں خُدا نے اسرائیلی حکومتوں کے مختلف اندازبیان کئے ہیں۔ پروٹسٹینٹ اصلاح کار نے خود بھی کلیسیائی انتظام اور حکومت کی بہت سی اشکال قائم کی ہیں مثلاً بشپ،پریسبیٹیرین یا کانگریشنل۔ لیکن زور اِس بات پر تھا کہ ہر شخص اپنی نجات کا خود ذمہ دار ہے۔ پروٹسٹینٹ کا تعلُق اِس بات سے ہے کہ کیتھولک کلیسیا نجات کے تعلُق سے کیا سِکھاتی ہے؟ انسان کی مُکمل محرومی، مرضی کا اسیر ہونا اور ایمان کی جانچ صرف ایمان ہی سے ہے۔ یہ بائبل مُقدس کا ناقابلِ تبدیل عقیدہ تعلیم ہے۔ ہمیں سولا سکرپچرا سے مُکمل مُطمئین ہونا چاہئیے۔ خُدا نے سچائی کو ظاہر کرنے کا انتخاب کر لیا ہے۔ پروٹسٹینٹ تاریخی کلیسیا کے مشوروں کو قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ پاک کلام کو سمجھتے تھے۔ لیکن جہاں پر رومن کیتھولک کلیسیا کلامِ مُقدس کی تعلیم میں تضادات پیدا کرتے ہیں ہم وہاں پر احتجاج کرتے ہیں۔

تھامس اکوینس

رومن کیتھولک اور پروٹسٹینٹ میں جو بہت بڑی دیوار حائل ہے اُسے تھامس اکوینس کی تحریروں میں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ بائبل مَُقدس کا بہت بڑا عالم تھا وہ یانانی فلسفہ اور مابعد الطبیات پر بہت زیادہ انحصارکرتا تھا۔ اُس نے مکتبہ فکر کا آغاز کیا جس میں اُس نے نجات کی اصطلاح میں بائبل مُقدس کی سچائیوں کو ختم کردیا۔

سن ١٥٠٠ کے کلیسیائی اصلاح کاروں نے دیکھا کہ رومن کیتھولک ١١٠٠ عیسوی سے لے کر ١٥٠٠ عیسوی تک بہت زیادہ تھامس اکوینئس، قرون وسطیٰ کے تصوف اور آگسٹین کے زیرِ اثر ہے۔ تھامس اکوینئس فلسفہ یونان کے تصور آزاد مرضی سے بہت مُتاثر تھا اُس نے سِکھایا کہ انسان نے نیک اعمال کرکے خُدا سے بہت تعاون کیا تاکہ نجات حاصل کر سکے۔ اگرچہ اُس نے آگسٹین کے علمِ الہیات کو بہت سراہا اور استفعادہ کیا لیکن وہ آگسٹین کے نجات کے بارے میں تعلیمات پر بالکُل مُتفق نہیں تھا۔ قرون وسطی میں مسیحیت کا پھیلاؤ نہ رُکا ۔ مغربی دُنیا کو مہذب بنانے کی بہت بڑی قوت کلیسیا تھی تاہم قرون وسطی کی کلیسیائی تعلیم آبائے کلیسیا سے بہت دُور چلی گئی تھی۔ بائبل مُقدس کی تعلیم پر غیر معمولی زور دینے کے باوجود کُچھ کیتھولک لوگوں نے قرون وسطی کے دوران اصلاح کا کام کیا اُن میں برنارڈ آف کلئیر وکس، مُقدس فرانسس آف اسیس اور گلِورامو ساونارولا قابلِ ذکر ہیں۔

برنارڈ آف کیئروکس

یہ صلاح کے دور سے پہلے کا عظیم مُقدس تھا جس نے آرتھوڈکسی تعلیم کی ترویج کی۔ اُس نے بارہویں صدی میں اِس بات پر زور دیا کہ انسان کی محرومی، مرضی کا اسیر ہونا اور ایمان کی جانچ صرف ایمان سے ہوتی ہے۔ اُس کا وعظ بنام تبدیلی پیرس کے لوگوں کے اُس گروہ کو دیا گیا تھا جو ابھی تک تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ تبدیلی کی اصلاح اُن لوگوں کی روانگی ہے جو اپنے آپ کو بدلتے ہیں اور راہب طبقہ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

اور پھر برنارڈ خُدا کے فضل کے تعلُق سے لوگوں کی تبدیلی کی بات کرتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے سامعین تبدیل ہوگئے جو تقریباً ٢٣ تھے اور اُنہوں نے یسوع کو قبول کیا۔ اُن کے ایمان کا اظہار ایک سال تک جاری رہا۔ برنارڈ نے یہ مُنادی کی کہ تُم اُس وقت تک نہیں بدل سکتے ہو جب تک کہ خُدا ایسا کرنا نہ چاہے۔ اُس نے اس تبدیلی کو انسانی مرضی کی بجائے خُدا کی حاکمیت کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا تھا۔ خُدا کی آواز سب کے لئے ہے اُن کے لئے بھی جو اُس کو نہیں سُنتے ہیں۔ خُدا اپنی راستبازی کو ظاہر کرتا ہے اگرچہ خُدا کا بیٹا جو خُدا کا کلام ہے اُس کے جلال کی صورت کا اظہار ہے۔۔ انسان اپنی بدکاری میں صرف بُرائی کے اعمال کرسکتا ہے۔ تمام نیک اعمال راستبازی سے پہلے انجام پاتے ہیں جس طرح کے بھی ہوں خواہ سراسر گُناہ ہی کیوں نہ ہوں۔

جتنا زیادہ ہم خود کو پرکھتے ہیں اُتنا زیادہ ہی گُناہگار پاتے ہیں۔ روزہ کفارہ شریعت کی پیروی وغیرہ۔ جسمانی دُنیاوی کو مغلوب اور مفلوج کرتی ہیں تا کہ اپنی بُری راہ پر چلنے کی کوشش میں جتنا زیادہ ہم نظم و ضبط اپنے اوپر لاگو کرتے ہی اُتنی ہی زیادہ گُناہ بھری انسانی فطرت ہمارے خلاف صف آرا ہوتی ہے۔ برنارڈ یہ مُنادی کرتا تھا کہ اے احمق فرزندو جب تُم سورؤں کی مانند بے تحاشہ کھاتے ہو تو تُم اپنی روح کی بھوک نہیں مٹاتے ہو بلکہ تُم اپنے جسم کے لئے کھاتے ہو۔ جب ہم دعوت میں جاتے ہیں تو ہمیں مُسلسل خوراک کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ پہاڑی وعظ میں یوں بیان ہے کہ:

مُبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہونگے (متی ٥ باب کی ٦ آیت)

یہ آسودگی صرف فضل ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ایمان جو دانشمند اور طاقتور سے چھُپایا جاتا ہے اور ننھے بچوں پر ظاہر کیا جاتا ہے تو پھر خُدا کی نظر میں کون راستباز ٹھہرتا ہے؟ برنارڈ کیتھولک راہبوں اور کاہنوں کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے جو دوسروں کو فضل دینے کا فرض نبھاتے ہیں۔ کیا اِس سے پہلے وہ اپنے دلوں کو صاف اور پاک کرتے ہیں۔ کلیسیا بالغ ہوتی ہوئی دِکھائی دیتی ہے۔ کاہنوں کا طبقہ امیر سے امیر ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہر طرف لوگ اِس کاہنوں کے طبقے میں شامل ہونے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اِس طرح وہ اُس خدمت کو نہیں کر پاتے ہیں جس کا احترام فرشتے بھی کرتے ہیں۔ برنارڈ نے اُنہیں تنبیہ کی ہے کہ کلیسیا میں حقیقی تبدیلی بڑے بڑے عہدے حاصل کرنے سے نہیں آتی ہے بلکہ توبہ کرنے اور یسوع کی راستبازی تلاش کرنے سے آتی ہے۔ تبدیلی ہمارے اعمال سے نہیں آسکتی ہے بلکہ یہ تو خُدا کا ایک تحفہ ہے جو صرف سادہ سے ایمان سے حاصل ہوتا ہے۔

فرانسس اسیسی اور ساونارولہ
وقتاً فوقتاً اصلاح کی مُنادی کرنے والے نجات کی مُنادی کرتے رہے اور کیتھولک کلیسیا کے درجات کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ کبھی کبھی طاقتور مُبلغ آتے رہے اور یورپ کے لوگوں نے اُن سے گواہی دینے کی روح حاصل کی۔ مُقدس فرانسس اسیس نے ١٣ صدی میں راہبانہ جماعت کی بُنیاد رکھی تھی۔ اُس نے راہب خانوں اور خانقاہوں کو چھوڑنے اور عام لوگوں کو بشارت دینے کے لئے کہا تھا۔ اُس کی راہبانی جماعت سادہ زندگی گُزارتی، خُدا کی محبت اور توبہ کی مُنادی کرتی اور لوگوں گروہ درگروہ اُن کی باتیں سُننے کو آتے تھے۔

جرولامو ساونارولہ پندھرویں صدی کا ایک اطالوی راہب تھا ۔ اُس نے کلیسیا میں پائی جانے والی بُت پرستی پر واعظ دیا تھا۔ قدیم کلیسیا میں شیرہ کے لئے استعمال ہونے والے پیالے مٹی کے ہوتے تھے لیکن بڑے راہبوں کے پاس سونے کے پیالے تھے۔ اُن دنوں میں کلیسیا میں سونے اور لکڑی کے پیالوں میں امتیاز تھا۔ اُس نے رومن درجہ بندیوں کو ایک عمارت سے تشبیہ دی تھی۔ پولوس رسول تنبیہ کرتا ہے کہ یہ نئی کلیسیا ہے یہ زندہ پتھروں سے تعمیر نہیں ہوئی بلکہ یہ تنکوں سے اور اُن سوکھے اور خُشک مسیحیوں جن کو دوذخ کی آگ فوراً پکڑ لیتی ہے۔ لیکن کلیسیائی نظام کی بحالی اور آبائے کلیسیا کے تجربات اکثر گُم ہوگئے۔ اصلاح کلیسیا کے ،مُبلغین مثلاً ساونا رولہ اور بوہیمن کے مُبلغ جان ہس کو کلیسیائی اربابِ اختیار نے موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ اِس طرح یہ بات واضح ہو گئی کہ رومن کیتھولک کلیسیا بد اعنوان تھی۔ شہیدوں کی موت سے صلاح کاروں کو بہت زیادہ ہمدردی مِلی تھی۔ قرونِ وسطی کے لوگوں میں اصلاحِ کلیسیا کے اجزائے ترکیبی (یعنی خُدا کے لِکھے ہوئے کلام) میں کمی رہ گئی تھی۔ مُقدس جیروم پندہوریں صدی کے راہب جس نے کلام ِ مُقدس کا ہفتاوی یونانی ترجمہ کیا مرگیا تھا۔ نئے عہد نامے کا یونانی سے لاطینی زبان میں بہت گھٹیا ترجمہ کیا گیا تھا اِس طرح نیا عہد نامہ لوگوں کے لئے غیر فہم رہا تھا۔ اُس وقت تک جونز گٹن برگ نے ٹائپ کرنے والی مشین ایجاد نہیں کی تھی۔ لیکن پرنٹنگ پریس کے باعد بائبل مُقدس کے نسخہ جات بہت سے لوگوں تک پہنچ گئے تھے اور اب ہر عالم کے پاس بائبل مُقدس یا کوئی نہ کوئی تحریری مواد موجود تھا۔ پرنٹنگ پریس نے جرمنی میں انقلاب برپا کردیا تھا بائبل کے لاطینی نسخہ جات اُمرا اور شمالی یورپ کے مذہبی راہنماؤں کے پاس ہی تھے۔ تضحیک آمیز بات یہ ہے کہ گٹن برگ نے پرنٹنگ سے بے تحاشہ دولت کمائی تھی۔ جس کو گُناہوں کی مُعافی کی طلب ہوتی وہ کفارہ کے طور پر بائبل کے نسخے کے ایک صفحے کی قیمت ادا کرتا تھا۔ عالمِ برزخ کا تصور ١٦ویں صدی کے آخر میں آیا تھا۔

١٤٣٩ میں ہونے والی فلارنس کونسل کے قیام سے قبل یہ کیتھولک ڈوگما کا حصہ نہ بنا تھا۔ بائبل کے نسخہ جات کی کاپیوں اور صفحات کی خریداری پر یقین دلایا جاتا تھا کہ عالمِ دوزخ میں انہیں سزا نہیں دی جائے گی۔ اِن نسخہ جات کی فروختگی پر جرمن کے کُچھ کاہن بہت ہی زیادہ امیر ہوگئے تھے۔ وہ صرف لاطینی زبان میں ہی مُیسر تھے اِس لئے اعلیٰ طبقہ کے لوگ ہی اُس سے استفادہ حاصل کر سکتے تھے۔ اگر آپ عالم یا شُرفا ہیں تو پرنٹنگ انقلاب سے روحانی طور پر مُتاثر ہونگے لیکن پندرہویں صدی کے عام لوگ جو بہت بڑے تعداد میں تھے۔۔۔بہت کم فائدہ ہوا۔۔۔اِن صدیوں میں اصلاح کا کام بہت زیادہ سُست روی سے ہورہا تھا۔ بائبل کا ترجمہ خواہ کِسی بھی زبان میں ہو وہ بہت محنت طلب ہوتا ہے۔ بڑی تبدیلی کے لئے یورپ کے لوگوں کو لِکھنا پڑا تھا جو کہ ایک طویل جدو جہد تھی۔

اصلاح کلیسیا کا زمانہ

١٦ویں صدی میں اصلاحِ کلیسیا نے بتایا کہ قرون وسطی کے آخر میں کلیسیا برترین بُرائی کی دلدل میں دھنسی ہوئی تھی۔ پاپائی زیرِ تسلط کلیسیا میں جنسی روابط معاشہ بدعنوانیاں اور خُدا کے کلام سے دُوری کا چرچہ تھا۔ کلیسیا یسوع کی گواہی کو بھول گئی۔ نفسیاتی ابتری کے اِس دور میں خُدا نے سچائی ہم آہنگی اور زندگی کو بحال کرنے کے لئے مارٹن لوتھر جان کیلون اور الرچی زونگلی اور جان ناکس کو استعمال کیا تاکہ وہ ایمان کی بُنیادی سچائیوں سے پردہ ہٹا سکیں۔

تقریباً ایک ہراز سال تک خُدا نے مُعاشرے سے کٹے ہوئے لوگوں کو استعمال کیا تاکہ وہ خُدا کی گواہی کے لئے بُرائیوں سے جنگ کر سکیں۔ مارٹن لوتھر نے ہر طرف سے ہونے والی مخالفت کا جم کر مُقابلہ کیا۔ اُس نے کیتھولک کلیسیا کی بدعنوانیوں اور سیاہ کاریوں کی پُر زور مخالفت کی۔ لاطینی بائبل پڑھنے کے بعد ایک اعلیٰ طبقہ سے تعلُق رکھنے والے شخص نے جب لاطینی بائبل کا مُطالعہ کیا تو اُس نے محسوس کیا کہ ڈوگما اور بائبل میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔

لوتھر نے لِکھا ہے کہ یونانی زبان میں چھپنے والے نئے عہد نامے کو پڑھ کر اُسے بہت دھچکا لگا جس میں بار بار توبہ کرنے کا حُکم تھا لیکن کفارہ نہ دینے کا حُکم نہ تھا۔ اِس کا رومن کیتھولک کلیسیا نے ترجمہ کیا تھا۔ فرق یہ کہ توبہ کا تعلق دل کی تبدیلی سے ہے اور اِس کے لئے بائبل کو سُننا چاہئیے اور کفارہ دینے کا تعلُق اِس بات سے ہے کہ وہ اچھے کام کر کے نجات حاصل کر سکیں۔

سن ١٥١٧ میں لوتھر نے ویٹن برگ میں ٩٥ نکات کا اشتہار چرچ کے دروازے پر لگایا تو اِس اپنے رُفقا کار سے توبہ کے ساکرامنٹ برزخ کے وجود اور بائبل کے اوراق اور نسخہ جات کی فروختگی پر مباحثہ کرنا چاہتا تھا۔ آپس کی بحث و تمحیض سے یہ نتیجہ نکلا کہ مارٹن لوتھر کو اپنے دعوے سے دست بردار ہوجانا چاہئیے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اِس جرمن راہب سے کلامِ مُقدس پر بحث کریں۔ جب وہا پنے دعوے پر قائم رہا تو سپاہیوں نے اُس گرفتار کر لیا۔ اُس کے لافانی الفاظ نے ١٦ ویں صدی کی تحریک اصلاح کلیسیا کو اور زیادہ اُبھارا۔

میں یہاں کھڑا ہوں میں کُچھ اور نہیں کرسکتا ۔ اے خُدا میری مدد کر۔آمین

فیڈرک دانش ہی ایک ایسا شخص تھا جس کی فوج نے مارٹن لوتھر کی مدد کی۔ اِسی دوران سوئزرلینڈ کے ایک نوجوان کاہن نے اصلاحات کا بیڑا اُٹھایا جس کا نام الرچ زونگلی تھا۔ وہ مارٹن لوتھر سے بھی دو ہاتھ آگے چلا گیا۔

١٥٣٢ میں زونگلی جس کو سول اتھارٹی کی مُکمل حمایت حاصل تھی اُس نے کنوارے پن مجرد زندگی، کاہانہ عہد و پیمان، مُقدسین کی تعظیم، برزخ کا وجود، ماس کی قُربانی اور اِس تعلیم کے نیک اعمال سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے کی پُر زور مخالفت کی۔

١٩٣٦ میں جینوا میں جان کیلون نے اپنی کتاب بنام انسٹی ٹیوٹ آف دی کرسچن رلیجن شائع کی۔ اِس میں اُس نے پروٹسٹینٹ مسیحیوں کی تھیالوجی کو جامع طور پر بیان کیا، اِس کو بیان کرنے میں مارٹن لوتھر ناکام رہا تھا۔ اِس میں اُس نے کلیسیائی حکومت کے منصوبہ بشپ اور پوپ کی اصلاح کی۔ اپنی تھیالوجی میں وہ بیان کرتا ہے حتمی حاکمیت اور نجات اعلی صرف خُدا ہی کی ہے۔ روحانی خیالات اور نجات کے حصول کا ذریعہ صرف خُدا کی پہلے ہی مخصوص شُدہ ذات ہے۔
پروٹسٹینٹ نے اصلاح ِ کلیسیا کا کال شروع کیا کیتھولک کلیسیا کے ایمان کے خلاف بغاوت کے طور پر نہیں بلکہ آرتھوڈکسی تعلیم اور مُقدس آگسٹین کی تعلیم نجات پر ازسرِ نو زور دینے کے لئے۔ اب پروٹسٹینٹ نے دیکھا کہ تاریخی آرتھوڈکسی تعلیم اُس شدو مد سے چل رہی ہے جس طرح قرونِ وسطی کے کیتھولک عالم دین اور ابتدائی صدیوں اور آبائے کلیسیا کت دور میں چل رہی تھی۔

روم کا اصلاح کلیسیا پر ردِ عمل
روم نے لوتھر اور کیلون کی اصلاح پر شدید غُصہ اور نفرت کا ردِ عمل ظاہر کیا۔ اُس کی واضح مثال یہ ہے کہ پروٹسٹینٹ صلاح کار ولیم ٹائنڈیل جس نے بائبل کا ترجمہ انگریزی میں کیا اُسے شہید کردیا گیا تھا۔ ٹائنڈیل کی اصل آزمائش اُس وقت ہوئی جب بادشاہ ہنری ششم نے روم سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اُس وقت اُس ٹائنڈیل کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردئیے گئے تھے۔ سر تھامس مور ایک رومن کیتھولک نے ٹائنڈیل پر مندجہ ذیل الزامات لگائے:

١)اُس نے کہا کہ صرف ایمان سے راستباز ٹھہر سکتے ہیں
٢)اُس نے کہا ہے کہ نجات کے لئے مسیح کا کفارہ ہی کافی ہے
٣)اُس نے کہا ہے کہ انسانی روایات ضمیر کو پابند نہیں کرسکتے
٤)اُس نے آزاد مرضی کا انکار کیا ہے
٥)اُس نے برزخ کے وجود کا انکار کیا ہے
٦)اُس نے کہا ہے کہ نہ مریم اور نہ ہی دوسرے مُقدسین ہمارے لئے دُعا کر سکتے ہیں
٧)اُس نے کہا ہے کہ ہم نہ مریم اور نہ ہی دوسرے مُقدسین کے لئے دُعا کر سکتے ہیں

کونسل آف ٹرینٹ

کونسل آف ٹرینٹ یا ١٩ ویں صدی کی اِکومینکل کونسل آف رومن کیتھولک سن ١٥٤٥ اور ١٥٦٤ کے درمیان اٹلی کے شمالی علاقے ٹرینٰٹ میں مُنعقد ہوئی اس میں پروٹسٹینٹ اصلاح کلیسیا کے اُٹھانے جانے والے چیلنجوں کے جواب میں کیتھولک کلیسیا نے اہم نکات کی نشاندہی کی۔ کونسل آپ ٹرینٹ نے پروٹسٹینٹ کلیسیا کے دلائل سے انکار کردیااور رومن کیتھولک ڈوگما کے قوانین مُرتب کئے۔ اِس کونسل نے برملا پروٹسٹینٹ ازم کے دعواں کا انکار کیا۔ مثلاً سات ساکرامنٹ، گُناہ کی بخشش، برزخ کا وجود، مجرو زندگی، ساری عُمر شادی نہ کرنا، کہانت کی ضرورت،ایمان سے راستباز ٹھہرایا جانا، باقیات کی تاثیر، کنواری مریم کی تعظیم کرنا اور مُقدسین کو ماننا وغیرہ۔ رومن کیتھولک نے سب سے اہم یہ کیا کہ راستباز ٹھہرائے جانے پر اپنا طریقہ رائج کیا۔ اِس طرح روم نے صرف ایمان سے راستباز ٹھہرائے جانے کو انکار کیا اور کلیسیائی اصلاح کار سے تعلُق توڑ لیا۔ جنہوں نے تاریخی اور اصلاحی عقیدہ تعلیم کی دُرستگی کا کام شروع کیا تھا۔ کونسل آف ٹرینٹ نے ناقابلِ تبدیل حُکم جاری کیا کی پروٹسٹینٹ ملعون ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ راستبازی صرف ایمان سے ہی حاصل ہوتی ہے تو اُس کا مطلب یہ ہے کہ کِسی اور کی ضرورت نہیں تاکہ فضل فضل کی راستبازی حاصل کی جاسکے اور یہ کِسی طرح ضروری نہیں کہ وہ اپنی مرضی اور اعمال سے کُچھ کرسکے۔ یہ انتھیما[ یہ ایک اصطلاح جا کا مطلب ہے کہ ملعون] اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے کاموں سے یسوع مسیح کے انصاف میں راستباز ٹھہرتا ہے یا اُس کے گُناہ مُعاف ہوجاتے ہیں۔ فضل کا اخراج یا سخاوت جو اُن کے دلوں میں روح القُدس کے وسیکہ سے ڈالی جاتی ہے اُن میں قائم رہتی ہے یا وہ خُدا کی طرف سے دی گئی آزاد مرضی یا نیک نیتی سے وہ راستباز ٹھہرتا ہے تو وہ معلوناور معطون ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے ایمان سے راستباز ٹھہرنا اور خُدا کے رحم پر اعتماد کرنے کے علاوہ کُچھ نہیں اِس سے مسیح میں گُناہ ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ صرف ہمارا اعتماد ہی ہے جو ہمیں راستباز ٹھہراتا ہے۔ یہ بھی معلون اور معطون ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ایمان رکھنے سے گُناہوں کی مُعافی حاصل کرنا لازمی ہے اور وہ اپنی کوتاہیوں اور گُناہوں کے باوجود اُس کو مُعافی مل جاتی ہے تو وہ معلون اور معطون ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ انسان کو گُناہوں سے مُعافی مل جاتی ہے کیونکہ اُس کا پُختہ ایمان ہے کہ گُناہ مُعاف ہوجاتے ہیں اور وہ راستباز ٹھہر جاتا ہے۔ جو ایمان رکھتا ہے وہ راستباز ٹھہرتا ہے کیونکہ صرف ایمان ہی بخشش اور راستبازی کا اثر ہوتا ہے تو وہ معلون اور معطون ہے۔

روم کے یہ بیانات تھیولوجی مقالہ سے بہت دُور ہیں۔ یہ تو پروٹسٹینٹ دُنیا پر سیاسی نُقطہ نظر سے اعلانِ جنگ تھا۔
سپین آرماڈا، مُقدس برتلمائی کے دن میسکرے پر تیس سال تک جنگ اور دیگر سیاسی قتل و غارت دراصل روم کا پروٹسٹینٹ کے خلاف انتھیما کے اعلان کا نتیجہ تھا۔

رومن کیتھولک اور پروٹسٹینٹ
بیسویں صدی میں

پہلی ویٹیکن کونسل ١٨٧٠ میں ایمان اور اختلافات کے بارے پوپ نے حتمی احکامات جاری کئے۔ اِس دعوے اور بیان کو صحیح قرار دیا گیا کہ کونسل آف ٹرینٹ بالکُل ٹھیک ہے اِس لئے ناقابلِ تبدیل ہے۔ اِس پاپائی حُکم نے ٢٠ ویں صدی میں پائے جانے والے پروٹسٹینٹ اور رومن کیتھولک اتحاد کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل کردی۔ پروٹسٹنٹ پوپ کو روم کا بشپ قبول کرسکتے تھے لیکن وہ روم کے اِس حتمی حُکم کو تسلیم نہیں کرسکتے تھے۔ کیونکہ اُس حُکم میں پاک کلام کے حوالے سے بہت سے تضادات تھے۔

ہمارا رومن کیتھولک کے ساتھ اتحاد اُس وقت تک ہوسکتا تھا اگر پوپ یہ دعوی نہ کرتا۔ اُس دن سے آج تک رومن کیتھولک اور پروٹسٹینٹ ہمیشہ الگ الگ کلیسیا ہیں۔ ١٩٦٢ تا ١٩٦٥ کی ویٹیکن کونسل دوم نے کونسل آف ٹرینٹ کے بیانات اور دعوؤں کو دوہرایا۔

رومن کیتھولک جو اپنے نام کے دعوے دار ہیں کہ وہ مسیح کے بدن میں متحد ہیں۔ ویٹیکن کونسل دوم پوپ اور بشپ صاحبان اِس بات پر مُتفق رہے ہیں کہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹینٹ کے درمیان باہمی بات چیت کی جائے۔ رومن کیتھولک ہر روز گرجا گھر میں علیحدگی اختیار کرنے والے بھائیوں کی واپسی کی دُعا کرتے ہیں تاکہ ایک مُکمل اور سچی کلیسیا ہوں۔ اِس سے کونسل آف ٹرینٹ کے قوانین میں نرمی پیدا نہیں ہوتی کیونکہ اِسے وہ ناقابلِ تبدیل خیال کرتے ہیں اور پروٹسٹینٹ کو معلون و معطون کہتے ہیں۔

پروٹسٹینٹ اُن چیلنجوں کا جواب کیتھولک کلیسیا کو یہ سراہتے ہوئے دے سکتے ہیں کہ کیتھولک کلیسیا تاریخی لحاظ سے بہت صحیح العقیدہ آرتھودکسی تھی۔ مُقدس آگسٹین کی تھیولوجی، آبائے کلیسیائے کے عقائد اور کیتھولک کلیسیا کے اُن مُقدسین کو سراہ سکتے ہیں جنہوں نے انجیلل کی مُنادی یہ کہہ کر کی تھی راست بازی ایمان ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ہمارا نُقطہ نظر یہ ہے کہ جو یسوع مسیح کی حاکمیت اور اختیار پر ایمان لاتے ہیں وہ کیتھولک یعنی عالمگیر مسیحی ہیں۔ اس لئے ہم مسیح کے عالمگیر بندن کے حصے ہیں ہم رومن کیتھولک نہیں کیونکہ ہم روم کے بشپ یعنی پوپ کے عالمگیر کلیسیا کے اختیار کو تسلیم نہیں کرتے۔

ایمان کے اتحاد کو تقویت دینے کا جذبہ
(جیسا کہ یسوع یوحنا ١٧ باب کی ٢٠ سے ٢٣ آیت میں دُعا کرتا ہے) ہمیں اپنے عظیم پروٹسٹینٹ ایمان کی مسایقت کو ٹائنڈیل، لوتھر، کیلون،ناکس، پریتانس، ایڈورڈز، وہائٹ فیلڈ،ویزلے، ہوج اور سپرجن وغیرہ کی طرح جاری رکھنا ہے۔ اِس طرح کرنے سے ہم تاریخی کیتھولک کو ایمان کی ترقی دیں گے۔ ہم اُن سچے کیتھولک رومن کیتھولک ایمانداروں کو جواب دے سکتے ہیں اور خاص موضوعات پر مُتفق نہیں البتہ وہ مسیحی جو ایمان کی آرتھوڈکسی مرکزی تعلیم رکھتے ہیں۔ ہمیں اِس بات کو تسلیم کرنا چاہئیے کہ رومن کیتھولک آرتھوڈکس ایمان دار ہیں اور اُنہوں نے دوبارہ جنم لیا ہے اِس لئے ہمیں اپنے اُن بہن بھائیوں سے اتحادکرنا چاہئیے۔

تاہم ہم رومن کیتھولک کےساتھ مُقدسین کی عزت و تعظیم، برزخ، دولت اور کفارہ کی تعلیم سے اتفاق نہیں کرتے۔ جب تک وہ اُس تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ہم اُن کے ساتھ عبادت اور پرستش نہیں کرسکتے ہم تو صرف اتحاد چاہتے ہیں۔ ہم اِس اتحاد برائے اتحاد کی وجہ سے اُن کے ساتھ اتحاد نہیں کرسکتے ہیں۔ ہمیں صرف اپنے ایمان پر سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ ہم رومن کیتھولک سے منت اور سماجت کرسکتے ہیں کہ پروٹسٹینٹ صلاح کاروں کواذیت دینا چھوڑ دے اور آج کے پروٹسٹینٹ اور صلاح شُدہ تاریخی کیتھولک ایمان پر ہم آہنگی اور موافقت پیدا کریں۔ رومن کیتھولک کلیسیا اِس خیال پر قائم ہے کہ کیتھولک اتھارٹی صحیح ہے۔ پروٹسٹینٹ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ کیتھولک اتھارٹی صحیح ہے لیکن ہم یہ ایمان نہیں رکھتے کہ یہ اتھارٹی کا انحصار رومن کلیسیا پر ہے۔ ہم اِس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آرتھوڈکسی ( صحیح العقیدہ) تعلیمات اور خُدا کا کلام حتمی حُکم اور اختیار ہے۔ خُدا کا شُکر ہے کہ اِس صحیح کیتھولک اتھارٹی کی دریافت پروٹسٹینٹ اصلاح کلیسیا نے کی تھی۔

Your comments are welcome

Use Textile help to style your comments

Suggested products