جب کبھی ایک پروٹسٹنٹ اقرار کرتا ہے کہ یسوع خداوند ہے، اور یہ کہ وہ کامل انسان اور کامل خدا ہے، باپ کا اکلوتا بیٹا؛ وہ خداِ تثلیث ہے، باپ،بیٹا، اور روح القدس، ایک صفت میں تین اشخاص، تو وہ آرتھو ڈکس کیتھولک ایمان کا اقرار کرتا ہے۔
یہ شاید طنزیہ لگے، لیکن آج پروٹسٹنٹس میں تشکیلِ نو کی ضرورت ہے ،خدا نئے مارٹن لوتھر کی تلاش میں ہے، جو اپنے ۵۹ مضامین کو آپکے کلیسیا کے داخلی دروازے پر ٹھونکے گا یہ آپ کے لئے دعوت ہے کہ آپ وہ اصلاح پسند بنیں ۔
آج کا خدمت گزار مسیحی بہت کم جانتا ہے کہ نوشتے کیسے لکھے گئے تھے اور نہ اس بابت کہ کلیسیائی آئین کیسے وجود میں آیا تھا، جدید ایماندار کے لئے بائبل کے فہم کا انحصا ر صرف اُسکی اپنی آزادانہ نوشتہ کی تاویل پر ہوتا ہے ۔جدید مسیحی اکثر ایمان رکھتا ہے کہ عقیدہ ایک انفرادی معاملہ ہے، تاہم ۲پطرس ۱ باب۰۲آیت کہتی ہے؛ نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔“
بے خطا کتاب اُس وقت مفید ہو سکتی ہے اگر آپ کے پاس تاویل کرنے والا بے خطا ہو۔ اصلاح پسند پروٹسٹنٹس متفق ہیں کہ ہر ایماندار کو نوشتے پر کام کا علم ضرور ہونا چاہیے، یہاں تک کہ کون فیصلہ کرتا ہے کہ بائبل کا کیا مطلب ہے؟ کون نوشتے کی درست تاویل کرتاہے؟
جدید بشارتی تصور لکھنے والے اس خیال کے علمبردار ہیں کہ ہر انسان اپنے لئے (پاک روح کی رہنمائی میں)خدا کے کلام میں موجود ساری سچائی کو دریافت کرنے کے لئے آزاد ہے، اور کسی”بے معنی عقیدوں“یا”طبقاتی اقرار “کا پابند نہیں ہے۔
بے شک، ”کوئی عقیدہ نہیں مگر مسیح“، یہ نعرہ ایک اجتماع ضدین اور خارج از امکان ہے، جبکہ یہ بیان بذاتِ خود ایک عقیدہ ہے۔
گزشتہ ۰۰ ۱برسوں کے خدمت گزار اور بنیاد پرست کس سے بچنے کی اُمید کرتے تھے وہ مردہ تقلید پسندی جس نے گزشتہ۰۰ ۸۱ سالوں میں الہیاتی آزادی کی طرف راہنمائی کی تھی۔ لیکن ایک عقیدہ صرف اس وقت بے معنی اور مردہ ہے جب ایک شخص کا ایمان جو یہ اعتراف کرتا ہے کہ یہ مسیح کی جماعت سے اتنا انفرادیت پسند اور خود مختار ہے، کہ ان کلمات کو بلا کسی خوف کے پڑھا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی اندرونی اعتقاد نہیں کہ کلیسیا۰۰۰ ۲ سالوں تک اس پر ایمان رکھ چکی ہے ۔جہاں ہم مردہ تقلید پسندی دیکھتے ہیں، یہ عقیدہ نہیں ہے جو مردہ ہے، بلکہ اس شخص کا ایمان ہے جسکا وہ زبانی اظہار کر رہا ہے۔
سوال اس شخص کے مخلص ایمان کا نہیں ہے جس عقیدے کا وہ زبانی اظہار کر رہا ہے؛ آیا کہ یہ مسیح کا اور کلیسیا کا ایمان ہے۔ جدید مسیحت فرد کی مکمل شخصی آزادی اور اسکے اپنے لئے بائبل کی تاویل کرنے کے نا قابلِ انتقال حق کو تسلیم کرتی ہے۔
جدید بشارت ایک ”کلیسیا“ ہے جس نے اپنی بنیاد ریت پر تعمیر کی ہے ۔اس نے انفرادیت پسندانہ مسیحت کو فروغ دیا ہے جسے ہر نسل میں دوبارہ ایجاد کرنا چاہیے۔ کچھ مسیحی حلقوں میں ہم ہر دو سال میں ”خدا کی ایک نئی تحریک“سنتے ہیں۔
خدمت گزار ”روایت “ کو رد کرتا ہے جیسے کہ یہ روحانی موت کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ تاہم بائبل بیان کرتی ہے ”ایمان جو مقدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا،“(یہودہ۳)؛”جو حق کا ستون اور بنیاد ہے “(۱تیمتیس۳:۵۱)؛ اور ہمیں خبردار کیا ہے، ”پس،اے بھائیوں! ثابت قدم رہو اور جن روایتوں کی تم نے ہماری زبانی یا خط کے ذریعہ سے تعلیم پائی ہے اُن پر قائم رہو“(۲تھسُلنیکیوں۲:۵۱)۔
جب ہم اس ایمان کو تھامے رکھتے ہیں، تو پھر ہمیں اپنے ذاتی اعتقادات پر قائم نہیں رہنا، مگر تقلید پسند کیتھولک ایمان؛ ایسا ایمان ہے جس کی بنیاد روایت پر ہے جس کو ترجیح دی گئی ہے اور یہ ایمان مادہ پرست عالمگیریت کو فروغ دے گا۔جونہی ہم اپنے روحانی آباواجداد کی اصلاح کرتے ہیں ہم اس حقیقت کا سامنا کر چکے ہونگے کہ آج کا انفرادیت پسند ایمان زیادہ تر کلیسیا کے لئے اجنبی تھا۔تاریخی بے ربطگی ایک مظہر ہے جو صرف اس صدی میں بڑے وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہے۔ ہمیں تاریخی ایمان کی عالمانہ اختراع سے بھی زیادہ نئی بات پیدا کرنی چاہیے؛ لیکن ایمان کی اصل صحت یابی کا تجربہ بھی کرنا چاہیے۔ کلیسیا تاریخ کی سادہ اختراع اور خالصتاً باپ کے وارث یعنی مسیحی جماعت کا زندہ حصہ ہونے میں بہت بڑا فرق ہے۔
کلیسیائی تاریخ صرف ناموں، جگہوں اور تاریخوں کی فہرست مرتب کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خدا کے خاندان میں پاک روح کی حیات ہے۔ کلیسیاکا یہی دعویٰ ہماری زندگیوں پر ہے جیسے مسیحت کا اور جیسے انجیل کا بذاتِ خود یعنی نا صرف ہماری مقامی کلیسیا نے بلکہ عالم گیر کلیسیا نے صدیوں سے کیا سیکھایا ہے۔ تبدیلی اُس وقت رونما ہو گی جب ہم یہ پوچھنا رکیں گے آیا کہ ہم Augustine،Athanasius،Tertullian،Irenaeusسے متفق ہیں ؛بجائے اس کے پوچھیں،”کیا کلیسیائی رہنما ہم سے متفق ہیں؟“ پرکھ کرنے اور فیصلہ کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے پوچھیں آیا کہ ہم کلیسیا سے اتفاق کر سکتے ہیں، ہمیں تاریخی کلیسیا سے پوچھنا شروع کرنا چاہیے کہ وہ ہماری پرکھ اور تجزیہ کرئے!
اگرچہ ہم تثلیث پر ایمان کا اقرار کر سکتے ہیں، کیا ہم واقعی سمجھتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے جب ہم کہتے ہیں ”ایک خدا میں تین شخص ہیں یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس؟“ یہاں تک کہ بشارتی کلیسیاﺅں میں بپتسموں کے نمایا ںاستثنا کے ساتھ تثلیث کا انتہائی کم ذکر کیا گیا تھا ۔اگر ہمارے گیتوں اور کوائروں سے تثلیث کا حوالہ ہٹا دیا جاتا، تو کس نے غور کیا ہوتا؟ کتنی بار ہم اس سوال پر غوروخوض کرتے ہیں،”یسوع کیسے خدا ہو سکتا ہے اور اُسی لمحے باپ سے الگ ایک شخص کیسے ہو سکتا ہے؟“
خدا کوئی ایسا فرد نہیں جو اپنے وجود کی شناخت کا دعویٰ کرتا ہے۔ خدا کلیسیا کے ذریعے راستبازی کی تلاش کا متلاشی نہیں ہے۔ خدا موجود ہے اور وہ اپنی گواہی خود دیتا ہے۔ باپ ابدیت کے لئے اپنے بیٹے کو جنم دیتا ہے اور باپ نے اس کے اندر روح القدس پھونکا اور بیٹے نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کلیسیا میں، خدا کلیسیا کی گواہی ہماری خدا کے ساتھ نا ٹوٹنے والی شراکت اور غیر مشروط محبت جس کا اظہار وہ ہمارے وسلیے کرتا ہے کہ ذریعے دیتا ہے۔
نوشتہ بیان کرتا ہے کہ ”خدا محبت ہے“(۱یوحنا۴:۶۱)“ یہ خدا کی خوبی سے بڑھ کر بیان کرتا ہے، بلکہ اس کی موجودگی کی وضاحت کرتا ہے۔ کلیسیا نہ صرف یہ اعلان کرتی ہے کہ خدا موجود ہے اور یہ کہ اس نے ہمیں پیدا کیا؛ بلکہ یہ کہ وہ ہمارے اندر اور درمیان رہتا ہے۔ ہم نا صرف نجات کے راستے کا اعلان کرتے ہیں؛ لیکن ہم ابدی زندگی کی کنجیوں کا اپنے پاس ہونے کا اعتراف بھی کرتے ہیں (متی۶۱:۹۱)۔
اس کے بالکل بر عکس، انفرادیت پسندی بیسویں صدی کی بشارتی کلیسیا کےلئے قطعی طور پر پریشانی کا باعث بن چکی ہے۔ جدید تصور یہ ہے کہ نجات کی صورت میں بغیر تاریخی کلیسیا کہ ایمان کے حوالہ کے ،خدا کے سامنے ایک فرد اکیلا کھڑا ہو سکتا ہے۔ خدا بہت سی تصوراتی خوبیوں سے مزین ہو کر ایک فرد بنتا ہے۔ مسیحت کا یہ تصور اس گھر کی مانند ہے جو ریت پر تعمیر کیا گیا ہے اور یہ ضرور اپنی بنیادوں سے ہلے گا اور برباد ہو گا۔
جب ہم تثلیث کی دریافت کرتے ہیں تو ہم ایک انسان کی حقیقی فطرت کو بھی دریافت کرتے ہیں۔ انسان حقیقی طور ایک شخص کی مانندخدا کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا، نا کہ ایک فرد کی مانند۔ خود مختار اور انفرادیت پسند دعویٰ میں انسان خدا کےخلاف بغاوت میں چلتا ہے۔ انسان نے ایک فرد ہونے کا انتخاب کیا اور ایسا کرنے میں اس نے موت کو چنُا نہ کہ زندگی کو؛ لعنت نہ کہ برکت(استثنا ۰۳:۹۱)۔ گناہ انسان کے ریکارڈ پر نہ صرف ایک گہرا دھبہ ہے بلکہ ایک روحانی خودکشی کا عمل ہے۔ گناہ نہ صرف خدا کی فرمانبرداری کے انفرادی عمل ہیں، لیکن محبت سے مکمل انکار سے بھی ذرا بھی کم نہیںہے اور اس لئے زندگی کے اپنے لئے بھی۔ انفرادیت پسند دنیا جو خود کو محدود کرنے سے اُچھلتی ہے اور اکیلا پن عالمِ ارواح ہے۔ پس کلیسیا کے پیشواوں نے اچھائی کی غیر موجودگی کو برائی کا وجود سمجھا؛ بالکل ایسے جیسے تاریکی روشنی کی غیر موجودگی ہے۔
دوزخ اس حقیقت سے کوئی بچاو¾ نہیں کہ خدا موجود ہوتا ہے۔ دوزخ میںشیطان خدا کی ابدی حضوری کے عذاب میں مبتلا ہوگا جس میں وہ کبھی نہیں بچ سکتا، خدا خود حق، زندگی اور محبت ہے۔ تثلیث کا خدا شخصی خود مختاری کے بر خلاف موجود ہوتا ہے، جو کہ محبت اور زندگی اور سچائی کی غیر موجودگی ہے۔ انسانی خودمختاری صرف آدمی کے بر خلاف ذہن کا عارضی وہم ہے۔ عدالت میں شریر کے چُھپنے کی کوئی جگہ نہ ہو گی۔ خدا کی محبت دوزخ کی آگ بھی ہے ۔پس ہم وہ بادشاہی پا کر جو ہلنے کی نہیں اُس فضل کو ہاتھ سے نہ دیں جس کے سبب سے پسندیدہ طور پر خدا کی عبادت، خدا ترسی اور خوف کے ساتھ کریں کیونکہ ہمارا خدا بھسم کرنے والی آگ ہے(عبرانیوں۲۱:۸۲:۹۲)۔
رسولوں،Nicene،Athanasian،Chalcedonian، اور دوسرے مقننہ جاتی بیانات خدا کی الوہیت میں تین اشخاص کی فطرت بابت، یسوع مسیح کا شخصی وجود اور انسانی فطرت؛ انفرادی خودمختاری کے وجود کوخوف زدہ کرتے ہیں۔ وہ ایمانی قوت کے ساتھ بولتے ہیں جو کہ انسانی رائے کا موضوع نہیں ہے۔ آبائی کلیسیائی عقائد ناقابلِ مذاکرات سچائیوں کا اظہار کرتے ہیں نہ کہ نظر ثانی موضوع کا۔ ان عقائد کا سورہ مسلسل انفرادیت پسند مسیحی وجود کے لئے ایک دھمکی ہے۔
کلیسیائی اتحاد کا ممکن ہونا صرف اور صرف ہمارے لئے تثلیث کی زندگی کو سمجھنے پر منحصر ہے۔ کلیسیائی رہنماوں نے بائبل کی تعلیمات پرتشریحات کیں۔ تثلیث میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق میں تین اشخاص نہیں ہیں۔ یہ خدا کی الوہیت میں پاک تثلیث کے تین اشخاص ہیں ۔یہاں تک کہ ،کلیسیا بھی افراد نہیں ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ تعلق میں ہیں۔ یہ خدا میں ایک دوسرے کے ساتھ شراکت میں اشخاص ہیں ۔دونوں کے درمیان اگر فرق ہے تو وہ فرق زندگی اور موت، آسمان اور دوزخ ہے۔
اسی لئے کلیسیائی رہنماوں نے سیکھایا، ”نجات کلیسیا سے باہر نہیں ملتی۔“ زیرِ موضوغ کلیسیا آپ کی مقامی کلیسیا یا کوئی انسانی ادارہ نہیں ہے، بلکہ کلیسیاکی جماعتوں کو دنیا کابابل انفرادیت پسند اور انسانی خود مختاری کہا گیا ہے۔ کلیسیائیں وہ ہیں جو ذاتی حکمرانی کے پُر فریب وجود سے عالمگیر جماعت کہلاتی ہیں۔ جو کہ خدائے قادرِ مطلق کے اختیار تلے حکومت کرتی ہے۔
کلیسیا کا پورا ڈھانچہ اس تثلیث کے وجود کی صورت پر ہے کلیسیا کی حکومتوں، خدمتوں، ساکرامنٹوں، خدمت کرنے والوں وغیرہ وغیرہ کو خدا کے موجود ہونے کا اظہار ضرور کرنا چاہیے۔
تقلید پسندوں کے نزدیک تثلیث کا معیار انتہائی حقیقی ہے۔ فرد کی مکمل خود مختاری؛ فرد کی یہ آزادی کہ وہ خدا کا نتخاب کرے اور فرد کی ذی فہم صلاحیت کہ وہ عالمگیر کلیسیا کے بنائے ہوئے تقلید پسند معیار کے بر خلاف سچائی کے ادراک کے لئے کھڑا ہو۔
الہیاتی جمہوریت میں ہر فرد کا نقطہ نظر اتنا ہی پائدار ہوتا ہے جتنا کہ دوسرے کا، اگرچہ وہ نقطہ نظر مکمل طور پر تقلید پسند مسیحت کے معیار کی نظر میں بدعت ہے۔ ایک کلیسیا جو کہ فرد کے اختیارِ اعلیٰ کو جاری رکھتی ہے۔ کلیسیائی جماعت گروہ یا قیادت کے باہمی صلاح مشورے سے ارکان کو قبول کرتی ہے یا رد کرتی ہے کلیسیا میں رکنیت کو تقلید پسند ایمان کے معیار پر نہیں دیکھا جاتا نہ ہی بپستمہ کے ساکرامنٹ لینے کو اور نا ہی شراکت کو دیکھا جاتا ہے۔ کچھ کلیسیاﺅںمیںحاضری سے ہٹ کر حتیٰ کہ رکنیت بھی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ ایمان کے عقائد اور اعترافات کو نا قابلِ پابندی مانا جاتا ہے ۔ پادریوں اور بزرگوں کو اُن کی جگہوں میں جماعتوں یا دوسرے رہنماوں سے قبول کروایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ کسی دوسرے اضافی حوالے سے، یا حتیٰ کہ اُنکی قابلیتوں اور بلاہٹ کے بغیر بھی۔ اگر مقامی کلیسیا میں سے کوئی نمائندہ ہے دوسرے اراکین یا رہنماوں کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا وہ شاید دوسری کلیسیا میں شامل ہونے یا اپنی شناخت بنانے کے لئے دوسرے شہر چلے جاتے ہیں۔ ہر کوئی خود مختارافراد کی مانند” آزاد “ہے اور ویسے ہی کرتا ہے جیسے وہ خوش ہوتا ہے۔
یہ کلیسیا نہیں ہے کہ مسیح نے کہا جو عالم اروح کے دروازوں پر غالب آئے گی۔
انیسویں صدی میں بشارتی کلیسیا آزدانہ انحراف کے خلاف دفاع کے لئے پیدا کی گئی تھی۔”مردہ تقلید پسندی“ کو مسترد کرنے میں وہ تمام عقائد اور اعترافات سے دور ہو گئے تھے۔ یہ ایمان رکھتے ہوئے کہ ایک عقیدے کے ساتھ ثابت قدم رہنا ایک فرد کی نوشتے کی تاویل کرنے کی نفی ہو گا۔ اُن کا ایمان تھا کا نوشتہ مقدس تھا، مگر تاریخی تقلید پسندی کے معیار کو ختم کرنے کے ساتھ، کلیسیانے نوشتے کے بارے کہا ہے ،انہوں نے ذاتی تاویل کے دروازے کو کھولا۔
آزاد خیال عالمِ الہیات نے انیسیوں صدی سے(وہ گروہ جو ایمان رکھتے ہیں کہ مسیحی ایمان، تعلیمات، اوراخلاقیات کو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونا چاہیے )ہم جنس پرستی اور نسوانی ہم جنس پرستی کرنے والوں کو خدمت گزار مقرر کرنے کے لئے ماہانہ وظائف دیئے جا رہے ہیں؛ خدا کی”نسوانی جنس“ کی تعلیم کے لئے بھی؛ نئی زندگی کو ممکن بنانے کے لئے ،حمل گرانے کے لئے، جعلی تخم ریزی کے لئے طلاق اور دوسری بڑی ناگوار حرکتوں کے لئے وظائف دیئے جا رہے ہیں۔
پھر بھی ”قدامت پسند “بشارتی کلیسیا صرف ۰۱یا۰۲سال انحراف سے دور ہے۔ حتیٰ کہ قدامت پسند بشارتی کلیسیاﺅں میں وہ ارکان ہیں جو تمام تر مندرجہ بالا باتوں کو برداشت کرتے ہیں، لیکن اپنے خیالات کو اپنے تک محدود رکھتے ہیں۔ وہ اپنے انفرادیت پسند عقائد کے ساتھ اور الہیاتی علم کے ساتھ جو متن کی ہر نفرت کو یکے با دیگرے ثابت کرتی ہے بہت جلد مکمل طور پر کوٹھڑی سے باہر آنے والے ہیں۔ ”قدامت پسند مبشران نے خاتون ایزابل کو برداشت کر لیا ہے اور تھوڑے ہی سالوں میں وہ اسکو ایک خدمت گزار کے طور پر مقرر کرنے کا اجازت نامہ دینے والے ہیں۔
مبشران مسیح کی الوہیت میں ایمان کا اقرار کرتے ہیں، کنواری سے پیدائش، قیامت، اور بائبلی تقلید پسندی کی دوسری تعلیمات۔ لیکن یہ صرف ایک حقیقی کلیسیا کا ایک دکھاوا یعنی ایک بناوٹی ڈھانچہ یعنی ایک سطحی ڈھانچی جو کہ انفرادیت پسندی اور موضوعیت کی ایک رتیلی اساس پر تعمیر ہوا۔ پروٹسٹنٹ فرقوں میں سے ہر ایک کی بنیاد اصلاح کے وقت رکھی گئی تھی جو کہ پہلے ہی آزاد خیالی کے طوفان سے ختم ہو چکا ہے۔ بمشکل ہی انہیں مسیحی جانا جاتا ہے۔ یہی چیز دوسرے بشارتی فرقے کے ساتھ واقع ہو گی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ آج کتنے زیادہ قدامت پسند نظر آتے ہیں۔
کیا اس سے کوئی راہِ فرار ہے ؟ ہاں،وہاں ہے! عالمگیر جماعت کو قبول کرتے ہوئے جو ایک کلیسیا سے کم تر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی؛ تاریخی کیتھولک ایمان کی بائبلی تقلید پسندی کو قبول کرتے ہوئے۔
ایک دفعہ جب ہم نے بپتسمہ لے لیا، شراکت لی، ہم کلیسیا میں داخل ہو گئے۔ ہم پر پاک روح کے انعام کی مہر کر دی گئی ہے۔ اور اُس میں متحد ہیں جسکا کلیسیائی پیشواوں اور دوسرے مقدسین نے صدیوں سے انحراف کیا ہے۔ ہم نے وہ ایمان پایا ہے جو خدا نے خود” مقدسوں کو ایک ہی بار سونپا تھا ۔“
یہ وہ کلیسیا ہے جس نے بائبل کو لکھا ۔ وہ کلیسیا جس نے بائبل کے آئین کو پایا؛ اور وہ کلیسیا جس نے ابتدائی عقائد سے سچائی کی بابت لازمی عبارتوں کو ترتیب دیا۔ یہ وہ کلیسیا ہے جو کہ پاک تثلیث کی لگاتار دعا کا مقصد ہے، ”تاکہ وہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح اے باپ !تو مجھ میں ہے اور میں تجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ہوں اور دنیا ایمان لائے کہ تو ہی نے مجھے بھیجا ہےتاکہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں (یوحنا ۷۱:۱۲،۲۲،)۔تثلیث کلیسیا کی زندگی ہے، کلیسیا ہی بہتر وجہ ہے کہ خدا کیوں انسان بنا، اختیار کلیسیا میں رکھا گیا تھا، لیکن وہاں انسان پر کوئی جبر یا خوف نہیں ہے، کیونکہ کلیسیا انسان کے وجود کی سچائی کا عکس ہے۔ کلیسیاصرف اُن کے لئے دھمکی ہے جو کہ سچائی پر ذاتی وجود کی خود مختاری کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس کلیسیا کو خاتمہ تک برداشت کرنا ہو گا۔ یہ جماعت خداوند کے واپس آنے تک رسولی ایمان کو بغیر غلطیوں کے محفوظ رکھے گی۔ خداوند نے خود ہم سے وعدہ کیا ”عالم ارواح کے دروازے کلیسیا پر غالب نہ آئیں گے“ اور ”میں دنیا کے آخر تک تمہارے ساتھ ہوں۔“ یسوع کی اپنے شاگردوں کے لئے دعا یہ تھی کہ وہ تثلیث کی مانند ایک ہوں۔ خدا کے ساتھ یہ ملاپ صرف کلیسیا کے وسیلہ سے ہی ممکن ہے جسکی بنیاد خود مسیح نے رکھی تھی۔