فور رنر کے پیچھلے شمار میں ( نومبر /دسمبر ١٩٩١) بحالی کی اس طرح وضاحت کی گئی ہے “ چرچ کی خاص نسل میں خدا کی شہادت کی بازیابی “ یہ تعریف یقینی طور پر دھندلا پن ظاہر کرتی ہے یا ہمارے مذہبی رہنماؤں میں یہ شہادت کھو چکی ہے، جسکو دوبارہ پانے کی ضرورت ہے اگر چرچ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں پھر سے اسکا اثر ہو۔
ایسی تبدیلی تب ہی آتی ہے جب بائبل کے نہ تبدیل ہونے والے اصول اجتمائی سطح پر عبادت کے تناظر میں جگہ لیتے ہیں. پس ایسی بیداری کو روحانی جاہ جلال کے ساتھ فروغ دینا ان ثقافتی حالات پر منحصر نہیں کرتے جو کہ بحالی کی طرح خوش آیند ہیں۔
پہلے بھی اس بات پر غور کیا ہے ، سہجیوی تعلق کی وجہ سے اور خط و خطابت کی وجہ سے جو تبدیلی چرچ میں آئی ہے اس معاشرے میں روحانی بیداری پیدا ہوئی ہے۔ روحانی بیداری سے ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ہی کم عرصہ میں بہت زیادہ لوگ بدلے ہیں اور چرچ میں شامل ہوۓ ہیں اور اس انتھک محنت کے نتیجہ میں ہمارے معاشرے کی کافی حد تک اصلاح ہوئی ہے۔
جہاں تک ہماری ترقی کا جائزہ لیا گیا ہے، تاریخی اثرات کی وجہ سے جو بحالی ہمارے چرچ میں آئی ہے اب وقت ہے کہ اس پر غور کیا جائے یہ اثرات بحالی کی ہر لہر کے ساتھ ساتھ فطرتی طور پر بڑھتے ہیں اور عام تقریبات کی طرح نہیں دیکھنا چاہتے جو کہ تاریخ میں خصوصی طور پر ہوتی ہیں چاہے ہم اصلاح کے دور پر پہلی اور دوسری عظیم بیداری یا صدی کے موڑ پر مقدس بحالی پر بحث کرتے ہیں ، پس ہم حقیقی واقعات کی مختلف اقساط کی تحقیقات کرتے ہیں جو کہ چرچ کو ترقی دینے کے لئے مختلف سازوں سے سجاتے ہیں اور اس کے ساتھ خدا کی بادشاہت کو بھی تاکہ خداوند کی دوسری آمد پر فتح کا تخت بنا سکیں۔
اصلاح سے شروع کرتے ہوۓ ہم بنیادی طور پر ٥٠٠ سال کی مدت میں اپنے تاریخی بحالی کی تحقیقات کو محدود کر لیں گے اور اپنے ساتھ اپنی نسل کو بھی موقع دیں گے کہ عظیم فریضے کو سر انجام دیں . ہم خدا کی شہادت پر غور کرنے کی کوشش کریں گے جو کہ ہر لمحہ میں پوری ہوئی بجاے کہ ہم ان اشخاص پر غور کریں جو کہ اس میں شامل تھے۔
قدیم چرچ
بحالی کے موضوع سے نمٹنے کے لئے ہمیں مسیحت کو پرانی اصلاحات کے مطابق واضح کرنا چاہئیے . اگر ہم پیچھلے ٢٠٠ سال کی مختلیف تحریکوں کے درمیان ، مختلیف فرقوں کو دیکھیں تو ہمیں بلاشبہ پتہ چل جائے گا کہ تاریخ میں مسیحت ہی سب سے اثر انداز تحریک ہے ، اس وسیح نظریہ سے مسیحی تحریک اس طرح واضح کی جا سکتی ہے کہ مسیحت دنیا کا سب سے کامیاب ترین مذہب ہے لیکن جب ہم بحالی کی بات کرتے ہیں تو ہم کسی بہت ہی اہم چیز پر بات کرتے ہیں۔
بحالی، اعمال کی کتاب کا نتیجہ ہے، یہ مذہب سے زیاد خدا کی تاریخ پر زور دیتی ہے . یہ اپنے لوگوں کے درمیان خدا کی شہادت کا پورا ہونے پر زیادہ زور دیتی ہے بجاے کے تحریک مسیحت میں جتنے مسیحی تھے۔
اعمال ١ : ٨ “ لیکن جب روح القدس تم پر نازل ہوگا تو تم قوت پاؤ گے اور یروشلم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے۔
ہم اعمال ٢ : ١- ٤ آیت میں پاک روح کے وعدے کا پورا ہونے کو پڑھتے ہیں۔
“جب عید پنتیکوست کا دن آیا تو وہ سب ایک جگہ جمح ہو گئے تھے. کہ یکایک آسمان سے ایک ایسی آواز آئی جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے اور اس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا . اور انہیں آگ کے شعلہ کی سی پھٹتی ہی زبانیں دکھائی دیں اور ان میں سے ہر ایک پر آ ٹھہریں اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں بولنے لگے جس طرح روح نے انہیں بولنے کی طاقت بخشی۔”
آئیں ہم روح القدس میں بپتسمہ لینے کو دیکھتے ہیں . اس ناقابل یقین واقعہ کے دو نتائج تھے : خدا کی قدرت کا اچانک ظاهر ہونا اور خدا کی شہادت کا پورا ہونا ( اور دونوں چیزیں خدا کے لوگوں میں صدیوں تک موجود نہ تھیں) شاگردوں کے لئے روح القدس کے بپتسمہ میں محض غیر زبانیں بولنا ہی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہمیت ہے . “ رو القدس میں بپتسمہ” کا مطلب ہے کہ پاک روح میں غوطہ لگانا . روح القدس میں بپتسمہ بحالی کی طاقت ہے پنتیکوسٹ کے دیں خدا کی شہادت کے اعلان پر تین ہزار لوگوں نے ایک ہی دیں میں چرچ میں شمولیت کی۔
قرون وسطی
کبھی کبھار چرچ کی ابتدائی صدیوں کے درمیان خدا کی شہادت کی طاقت کو نقصان پہنچا تھا. بحالی ، کسی کھوئی ہوئی چیز کو پانے کا ذکر کرتی ہے ، ہم اس قانون کو پوری تاریخ میں کم کرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں . قرون وسطی کے دوران مسیحت بڑھتے ہوۓ نہ رکی . چرچ مغربی دنیا کی عظیم تہذیبی طاقت تھی . قرون وسطی کے چڑھ کو بہت پہلے ہی پہلی صدی کے شاگردوں سے ہٹا لیا گیا تھا۔
کبھی کبھار اسسسسی کے سینٹ فرانسس جیسے تبلیغ کرنے والے ظاهر ہوتے ہیں اور یورپ کے عام لوگ ایک بارپھر خدا کی شہادت کی قدرت کو قبول کرتے ہیں لیکن پہلی صدی کے شاگردوں تجربات کو بھال کرنے کی کوششیں آہستہ آہستہ ، قرون وسطی چرچ کی روایات اور شاندار مظاہروں کے دوران کھو گییں تھیں . بار بار بحالی پر تبلیغ کرنے والے رومن چرچ کے مذہبی رہنماؤں کی زیادتیوں پر مزہمت کرنے کے لئے ظاهر ہوں گے۔
گرولامو سوونرولا ، پندروی صدی کا راہب ، اس نے اپنے دور میں چرچ کا عہد سنبھالا . وہ اپنے خطبات میں بتپرستی کو بیان کرتا تھا “ ابتدائی چرچ میں پیالے سونے کے تھے اور لیکن اس کے دور میں پیالے لکڑی کے تھے” . ایک جوشیلے خطاب کے ساتھ ،سوونرولا نے رومن مذہبی رہنماؤں کو “ لکڑی ، گھاس اور ہونٹی “ کے ساتھ تشبیہ دی تھی جو کے پولوس رسول نے پہلی صدی کے چرچ کو خبردار کیا تھا کہ “ یہ ایک نیا چرچ ہے جو پتھروں سے نہیں بلکہ لکڑیوں سے بنا ہوا ہے’‘
چرچ کی انتظامیہ نے اصلاح کے تبلیغ کرنے والے سوونرولا اور بوہیمین جین ہس جیسے کو موت کی سزا دے دی تھی . یہ بات عام لوگو کو بھی واضح ہو گی تھی کہ رومن چرچ بدعنوان ہے عظیم شہیدوں کی موت کو ان کی اصلاح کی چیخ و پکار پر صرف ہمدردی ہی ملی۔
قرون وسطی کے لوگوں کے پاس ، بحالی کی طاقت واپس لانے کے لئے ایک اہم چیز نہ تھی جو کہ “ خدا کا لکھا ہوا کلام تھا “ . سینٹ جیروم کے وقت سے ، پانچوی صدی کے راہب جنہوں نے یونانی نے عہد نامے کو بیہودہ لاطینی میں ترجمہ کیا تھا جس کی وجہ سے خدا کا کلام عام لوگوں میں غیر واضح رہا تھا۔
یہ جوہننس گٹنبرگ کی طرف سے منقولہ قسم کی ایجاد تک نہیں تھی کہ بائبل مقدس اجتمائی مقدار میں دستیاب تھی . پرنٹنگ پریس ایجاد نے اب جرمنی میں انقلاب برپا کیا . اب ہر عالم کے پاس کتاب کی ایک نقل یا کسی قسم کا چھپا ہوا مطلوبہ مواد تھا . گٹنبرگ بائبل کے لاطینی اشاعت طبقہ امرا اور شمالی یورپ کے چرچ رہنماؤں میں پھیل گئے۔
ستم ظریفی یہ ہے گٹنبرگ کی روزی بنیادی طور پر معافی طلب دعاؤں کی چھپائی سے آتی تھی . ایک صفہ کی دستاویز جو کتھولک کلیسیا کو بیچ دے جاتے تھے جو ساکرامنٹ ملنے کے بعد گناہوں کی معافی کے لئے ہوتا تھا . جرمن رہنما اس دستاویز کو بیچنے کی وجہ سے امیر ہو گئے تھے . گٹنبرگ کی بایبلوں سے صرف دانشور طبقہ ہی فائدہ اٹھا سکا کیوں کہ وہ لاطینی زبان میں دستیاب تھے ، اگر اپ ایک عالم یا امیر انسان ہوتے ہیں تو اس چھپائی کے انقلاب نے آپکو روحانی متاثر کیا ہوگا لیکن پندروی صدی کے عام لوگوں کے لئے اصلاحات کے لحاظ سے تھوڑا فائدہ تھا۔
ان صدیوں میں اصلاح ایک بہت ہی سست عمل رفتار تھا . بائبل بری مشکل سے ہر قوم کی زبان میں ترجمہ کی گی تھی . بارے پیمانے پر بحالی کی جگہ لینے سے پہلے یورپ کے لوگوں کا حرف شناس ہونا ضروری تھا . یہ شہیدوں کے خون سے جیتی ہوئی ایک لمبی جدوجہد تھی۔
اصلاح کا دور
سولویں صدی کے چرچ کی اصلاح نے قرون وسطی کے اختتام کی نشاندہی کر دی تھی ، اس وقت جب چرچ کو مصیبت میں دھکیلا گیا . پاپاے کی نفرت ، جنسی فاجر ، پیسوں کے ہیر پھیر اور خدا کا کلام کا نظر انداز کرنے کے بوجھ کے تلے ، چرچ نے خدا کی شہادت کا قردار کھو دیا تھا . اس جہالت کی افراتفری کے درمیان خدا نے چرچ کی سچائی ، نظام اور روح کو بحال کرنے کا عمل شروع کیا۔
خدا نے مارٹن لوتھر . جان کلیوں جیسے لوگوں کو استمال کیا کا وہ مسیح ایمان کے بنیادی سچ کو بحال کریں جو تقریباً ایک ہزار سال سی کھویا ہوا تھا . خدا نے تجویز کرنے والے ، عقلمند اور روحانی گہرائی رکھنے والے لوگ چنے تاکہ وہ اپنی نسل میں خدا کی شہادت کی جنگ جیت سکیں.
ابتدا میں اصلاح کا عمل اتنا روحانی نہیں تھا جتنا کہ ہم تصور کرنا پسند کرتے ہیں لوتھر کی ایک نسل پہلے بادشاہ ہنری ہشتم نے انگلستان میں اصلاح کو فروغ دیا جب پوپ اراگون کی کتھریں سے خود کی طلاق کی شناخت کرنے میں ناکام رہا . خود غرضی کی وجہ سے ہنری نے انگلستان کے چرچ کو روم کے چرچ سے جدا کر دیا . وہاں مسیحی نظریہ کے علاقے میں اونجلیکن چرچ میں تھوڑی سی اصلاح تھی.
دوسری طرف مارٹن لوتھر چند سال بعد ظاہر ہوا اور یورپ میں سیاسی ، سماجی اور مذہبی حلقوں سے انے والے اختلافات سے دفاع کے لئے لڑائی کی . خود غرض سیاسی خواھشات سے ہٹ کر حقیقی روحانی محرکات کی طرف ، لوتھر نے رومن کتھولک چرچ کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کیا . لوتھر ان عظیم اشخاص میں سے تھا جنھوں نے لاطینی بائبل پڑھی اور لوتھر نے محسوس کیا کہ وہاں سرکاری چرچ کے نظریے کے کئی علاقوں ہیں جو خدا کے وعدہ کی تعلیمات کے ساتھ یکساں نہیں.
جب لوتھر نے وتنبرگ چرچ کے چرچ کے دروازے پر ٩٥ دعوے کے اشتہار لگے تو اس نے محض ایک مذہبی بحث کرنے کے لئے سب کو ساتھ بلایا جو کہ ان دنوں کی عام مشق تھی .: حالنکہ وہ لوتھر کے انجیل کے علم کے مطابق بحث کے لئے تیار نہ تھے . فوجیوں نے لوتھر کو اس وقت گرفتار کیا جب اس نے اپنے دعوے کو واپس لینے سے انکار کر دیا تھا . سولہویں صدی کی اصلاح میں اس کے الفاظ لافانی اور اثر رکھنے والے تھے “ میں یہاں کھڑا ہوں ، میں کچھ نہیں کر سکتا ، خدا میری مدد کرے آمین “ یہ فراڈرک کی فوج کی معاونت تھی کہ جس نے لوتھر کو سبق اصلاح پسندوں کی طرح مرنے سے دور رکھا.
اس عرصۂ کے دوران . زیورک سوٹزرلینڈ میں الرچ زونگلی نامی ایک نوجوان پادری نے اصلاح پر زور دینا شرو کیا جو لوتھر کی بھی ہدہ پر کر گیا تھا . ١٥٢٣ میں زونگلی ، شہری احکام کی حمایت کے ساتھ رہبانی وعدوں کے ، پادری کے کنوارےپن کے ، سینٹ کی سفارشوں کے ، پلائشی مجودگی کے ، بارے پیمانے پر قربانی کے قردار کے اور تعلیمات کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تا کہ اچھے کاموں سے نجات حاصل کرے۔
بیس سال بعد جنیوہ ، سوئٹزر لینڈ میں جان کیلوں نے اپنا ایک مسیح مذهبی کتاب چھپوائی ، جس میں اس نے پروتستنٹ مسیحت کے لئے جامح عقائد و مذاہب کا مطالعہ اہم کیا جو کہ لوتھر کرنے سے ناکام ہو گیا تھا ، اس نے واضح طور پر ایک منصوبہ بنایا اور عمل کیا کہ چرچ گورمنٹ کو پوپ اور بشب صاحبان کے اصلوں سے الگ کرے . اس کے عقائد و مذاہب کا مطالعہ خدا کی حتمی خود مختاری پر زور دیتا تھا اور خدائی انتخاب کے خیال پر زور دیتا ہے جو کہ نجات کے لئے ایک اہم شرط ہے۔
اس اصلاح کے عرصہ میں مندرجہ ذیل نظریے بہل ہو گئے:
صرف ایمان کے ساتھ ہے تائید ١۔
٢۔ ایک پہلے سی قائم حقیقت کہ خدا کی سب مردوں پر اور قوموں پر خود مختاری
٣۔ مسیح کا کم اسکی موت اور دوبارہ جی اٹھانے میں مکمل اور یہ عظیم فتح چرچ کو مطلح کرتی تھی
٤۔ سب ایمان رکھنے والوں میں پادری پن شامل تھا اور ہر کوئی مسیح تک پہنچ سکتا تھا بغیر انسانی ثالث کے
خدا کی ریاست کا زمین پر مظاہرہ جیسا کہ چرچ ٥
٦۔ ایک عام آدمی بائبل پڑھ سکتا ہے اور اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں لاگو ہو سکتی ہے
مغربی تہذیب پر اصلاح کے اثرات تعجب خیز سے کم نہیں ہے . اس وقت کے دوران پرنٹنگ پرس کی ایجاد نے بائبل بنا دی اور اس کے عقید و مزاہیب کے مطلعہ کی اصلاح کی اور پھیل گی پوری جرمنی کی ریاستوں میں ، سوئٹزر لینڈ اور اکھڑ کر برطانیہ میں اس طرح ایک نئی دنیا کے بارے میں بائبل کے ساتھ چرچ ، کام ، فن ، موسیقی ، سب سے زیادہ نمایاں طور پر اور حکومت کے دائرے میں نشمول ثقافت کے ہر شعبے کو متاثر کرنا شروع کر دیا . کلیسیا فرقہ ترقی کے لئے ، نہ صرف مغرب میں مشین بن گیا لیکن مسیحت کو آباد دنیا میں برابری کے ساتھ پھلانے لگا۔
پرٹنس کا کردار
سولہویں صدی کے اکھڑ تک ، شمالی یورپ کے ممالک نے کلیسائی سے منسوب سیاسی نظام کے بندھن کو طور دیا جو کہ روم سے بندھ ہوا تھا لیکن اس ہنگامے کا ایک عام آدمی کی اقتصادی ، اخلاقی اور سیاسی حالت پر کیا اثر ہوا ہوگا ؟ اب بھی کئی ایک کسان ایک جاگیردار کے گھر یا محل کے قرون وسطی کی چھایا میں ، اپنے رب یا جاگیردار کے مطالبات کو برقرار رکھنے کے لئے کارکنوں کی ٹیم میں رہتے ہیں . اس نے اپنی پوری پیداوار میں سے ایک مقرر فیصد اپنے رب کو ادا کرنا ہوتی تھی اور قانونی طور پر وہ اس خدمت گزاری سے بندھے ہوۓ تھے . متعدد جنگوں کے درمیان ، بیروزگار بھرے کے فوجیوں نے دیہی علاقوں میں گشت کیا اور کسان کے دیہات کو لوٹ لیا . تمام مرد جب بھی گھروں سے حرارت کے لئے نکلتے تو وہ اپنی دفاع کے لئے چاکو اور چھریاں ساتھ لے لیتے۔
برے حالات ہونے کے باعث کسان کی اخلاقی زندگی ناپختہ تھی . غذا کم ہونے کی وجہ سے اور کم زیادہ ہونے کی وجہ سے ، کسان ایک دیں میں تقریباً ایک گیلان بیر یا شراب استمال کر جاتے تھے . شادیاں اور تعطیلات شرابی جشن کے مواقح تھے ؛ بہت برا تہوار اور کھیل منعقد ہوتے تھے جس میں کسانوں کو ہر قسم کے خام رویے میں مشغول ہونے کا موقع دیا جاتا تھا . اصلاح واقعی صرف ایک طویل بہتر عمل کی دہلیز پر تھی . ١٦٤٨ میں تیس سالہ جنگ کے اختتام تک سیاسی منظرنامے پر جو اثرات تھے ، واضح طور پر نہیں تھے . عام آدمی کی اقتصادی اور اخلاقی حالت کو مزید اصلاح کا انتظار تھا۔
پریتانس جن کا نام تمسخر استمال ہوتا تھا ، یہ نام اس لئے استمال ہوتا تھا کیوں کہ ١٥٦٠ میں انگلیٹن میں چا گئے تھے اور عام لوگوں کے کھیلوں کو ختم کر دیا . وہ بنیادی طور پر کلیسیا کے پیروکار نہ تھے جو یہ مانتے تھے کہ الزبت کی اصلاح نے بہت سے کتھولک طریقوں کو برقرار رکھا ہے اور انگلستان کے چرچ کو پاک رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں . پریتانس ملکہ الزبت کے دباؤ میں آ گئے تھے جو کہ ان کے کالویینی عمل جو کہ چرچ کا معملات میں شرکت کرنا تھا ، کی مزمت کو ، اس لئے کہ ملکہ الزبت نے یہ بانپ لیا تھا کہ چرچ کی آواز ہی ریاست کی آواز بنے گی اور اس طرح بادشاہت کو دھمکی دی۔
ساتھ شہریوں کے تمسخر اور اور بادشاہت کے دباؤ کے باوجود پریتانس انگلیٹن میں وسیح پیمانے پر بااثر تھے . اصلاح پسندوں کی کسی بھی دوسرے گروہ سے زیادہ ، وہ انفرادی زمداریوں پر اور فرض پر زور دیتے تھے . پریتانس نے معاشری زندگی کے ہر دائرے سے تعلق رکھنے کے لئے دنیا کے بارے میں اصلاح منعقد کی . انہوں نے بائبل کے اصلوں کو ا علیحده کرنے کے لئے بائبل پڑھی تا کہ یہ اصول انسانی زندگی کے مخصوص حصوں میں استمال ہو سکھیں . انسانی کی ہر ایک سرگرمی جو بائبل میں بیان کی گی ہے جیسے کہ شادی ، حکومت ، فن ، زراعت ، سائنس وغیرہ . ان کو ایک “ قانون “ کی طرح دیکھا جاتا ہے جو کہ خدا نے مقرر کیا ہے جس کی اصلاح بائبل کے قوانین کے مطابق ہو گی۔
١٦٠٠ کی دہائی میں جیمز نے ان قوانین کے ساتھ جو چرچ آف انگلستان کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں ، پریتانس کو خوف زدہ کیا . اس کی حکمرانی کے دوران ، سب سے زیادہ انتہا پسند پریتانس ، ان اصلاحات کی کوششوں پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اور ایک نئی دنی میں بھگ گیا . پریتانس جو امریکا میں آے ، انھوں نے امریکا کو ایک غیر فتح یافتہ ریاست پایا جس میں انجیل کی پیشگی کرنا تھی . انھوں نے اس جگہ کو مسیح کی ملکیت کی طرح دیکھا جس میں کاشتکاری کرنی ہے اور اس کی دیکھ بھال مردوں نے کرنی ہے . انھوں نے یہ یقین کر لیا تھا کہ اگر وہ انفرادی طور پر دوبارہ پیدا ہوتے ہیں تو ، اب سارے معاشروں کو بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا . یہ امریکا میں تھا دنیا کے بارے میں اصلاح سب سے زیادہ مثالی بنی . امریکن سوسایٹی اس میں منفرد تھی کہ یہ دنیا کی پہلی ثقافت تھی ( قدیم اسرائیل کی رعایت کے ساتھ ) جس میں بائبل کے اصول سوال حکومت اور قوانین کی بنیاد تھی۔
سترویں صدی میں امریکا نے سوال حکومت ، قانون ، تاریخ اور ادب کے میدان میں اصلاحات کی عظیم کامیابی دیکھی . سترویں صدی میں مندرجہ ذیل اصلاح کے ادارے امریکا کی خصوصیات تھے ، جو کہ پریتانس نے قائم کی اور اسی وقت سے پوری دنیا میں اس کی نقل کی گی۔
سوال حکومت : پریتانس کا حکومت کے ساتھ تجربہ پلایموت کے باغان میں شروع ہوا . پریتانس میں سے ١٠٠ میں سے ٢٧ افراد کشتی پر گل گنچہ لے کر داخل ہوۓ تھے اور گروپ کے لیڈروں نے فیصلہ کی کہ “ عہد “ پر دستخط کرنے کی ضرورت ہے تا کہ جو مسافر بدلے ہیں ان کے کسی بھی تارہ اختلافات پر قابو پایا جا سکے ، جنھوں نے پہلے بھی غیر قائع اور باغی بیانات دیے . وہ خود میں سے الکشن کے زریح ایک گورنر چنتے جو کہ ایک سلل کے لئے اقتدار سنبھالتا . باہمی عہد پر دستخط کرنا آینی حکومت کے لئے بنیاد بن گیا اور ایک خاکہ بن گیا ان دستاویز کے لئے جو کہ امریکا سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔
قانون : پریتانس آبادکاروں کے درمیان قانون کے لئے واحد بائبل ہی بنیاد تھی . تمام سوال قوانین کی بنیادیں بائبل کے اصلوں پر تھیں . بریڈ ولیم فورڈ ، پریتانس کا دوسرا چنا ہوا گورنر ، درجہ ذیل واقعہ سے مطلق ہے : جب نے خطے میں پہلی شادی ہونی تھی ، مسافروں نے یہ رسم سر انجام دینے کے لئے وزیر کی بجاے ایک سوال مجسٹریٹ کو منتخب کیا . انھوں نے یہ دلیل دی کہ یہ رواج پرانے اور نے عہد نامے کے ساتھ بااصول ہیں . اس قانون یا شادی کے بارے میں قضاء پر آمادہ ہونا پر چونکہ بائبل میں کہیں بھی یہ حوالہ نہیں ہے کہ شادی کروانے کی ذمداری وزیر پر ہے یا اس کے دفتر کا حصہ ہے۔
تاریخ : پریتانس نے خدا کی بنی ہوئی زمین کی طرف سب انسانوں کی پیش رفت دیکھی . پہلی کرسچن تاریخ کو یسوع کی دنیا میں آنے کی تیاری کے لئے پڑھا جاتا تھا . وہ یہ مانتے تھے کہ خدا کا ہاتھ ہر تقریب میں مجود ہے اور دونوں افراد یا قوموں کی کامیابی یا ناکامی ، خدا کی منظوری یا مزمت کی علامت سمجھتے تھے . خدا کا نمونہ ہر تقریب میں دیکھ جاتا تھا چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔
ادب : اتفاق سے جدید دور کا سب تعلیم یافتہ معاشرہ مسسچستٹس بے کولوننے تھا ، جس نے پلیموت کالونی کو کامیاب کیا . ١٧٠٠ کے وسط کے وقت امریکن کالونیوں کے شاید دس لکھ باشندے تھے ، پھر بھی یہ ادبی معیار سے مالامال ہیں . پریتانس میں یہ اعلیٰ خواندگی کی شرح اس لئے زیادہ تھی کے وہ انفرادی طور پر خدا سے پہلے بائبل کو پڑھنے اور سمجھنے پر زور دیتے تھے . ولیم بریڈفورڈ , این برادسٹریٹ , میری روولندثوں , ایڈورڈ تیلور , سارہ کمبلے کنگہت , کوتوں متحیر, اند جوناتھن ایڈورڈس۔
پریتانس کا کردار مندرجہ ذیل ہے:
١. تصور کیا جاتا ہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبے خدا کی طرف سے دے گئے قوانین ہیں اور اصلاح کے لئے ہیں۔
٢. عام لوگوں پر زور دینا کہ چرچ کے معملات میں آواز اٹھاییں .
٣. انفرادی ذمداری اور فرض اور کاروباری جذبہ اور آزاد مندی کا نظام .
٤. عہد اور معدے چرچ اور سوال گورمنٹ کی بنیاد پر .
پہلی عظیم بیداری :
اٹھارویں صدی کی بیداری کو قابل تعظیم سمجھا جا سکتا ہے کہ رسولوں کے دور کی پہلی بیداری تھی . جب کہ یہ بیداری برطانیہ اور امریکا پر جغرافیائی طور پر محدود ہے ، نتیجے کے طور پر یہ بیداری دنیا میں بارے پیمانے پر انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہے . جب کہ اس بیداری نے خدا کی شہادت کو چرچ کے اندر پورا کر دیا تھا ، بلکہ عظیم بیداری نے اصلاح کی تعلیمات سے جنم لیا .
جبکہ ہم سچ جو کہ بحالی کی ہر مسلسل لہر میں بھال رہا تھا ، اگر ہم ریاست عما کے عظیم کارنامے کا ذکر نہ کریں جس کا خدا نے اس وقت بہت زیادہ استمال کیا تھا تو ہم غفل ہو جایئں گے . امریکا سے ہی ایک عظیم مذہبی عالم آیا . اس وقت برطانیہ نے غرور کیا کہ چارہ کے وقت سے رسولوں کی طاقت مستحکم ہے اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں . جان اور چارلس ویسلے , اور گیورگے وہیٹفیلڈ جیسے آدمیوں کے کچھ نام پیش قدم بیداری کے ساتھ جوڑے ہوۓ ہیں .
مناسب طور پر پہلی عظیم بیداری کی جڑیں جرمنی میں تھیں ، جہاں پر اصلاح ترک ہو گیی تھی اور جہاں پر کونٹ نکولس لڈوگ وون زنزندورف نامی آدمی نے ایک گروہ کی بنیاد رکھی تھی جس کا نام ہررنھت ، ١٧٢٤ میں موراویٰ کے صوبے میں بنیاد رکھی گئی تھی . موراویٰ معاشرے میں روح القدس کا اقدام تھا . زنزندارف اور اس کے شاگردوں نے ایک دعا کا اجلاس
رکھا جو سو سال تک جاری رہا اور سرے دیں تک رہتا جو لوگ دنیا اور چرچ کی حدود میں نے بدلے ، ان کے لئے دعا کرنے کے لئے انھوں نے پورے دیں میں وقت مقرہ کے ہوۓ تھے . موراویٰ نے دو طرح کے مشنریز بھیجیں : ایک وہ جو کھوے ہوۓ کو ڈھونڈے اور دوسری وہ جو فرقے کو جیتے .
اس دوران میں جوناتھن ایڈورڈس , نورتھمپتوں , مسسچستٹس پادری نے اپنے نہ تبدیل ہونے والی جماعت اور نہ تبدیل ہونے والے شمالی امریکا کے لئے دعا کرنا شروع کر دی . ١٧٣٤ کی ابتدا میں اس کی بحالی کو فروغ دینے کی کوششوں سے اس نے کامیابی کا بہت لطف اٹھایا . ایڈورڈ کا جزبہ خدا کی شان شوکت کے لئے تھا اور غفل کے درمیان بادشاہت کی ترقی تھی .
میرا دل مسیح کی دنیا میں بادشاہت کی ترقی کے لئے ہے . گزاری ہی مسیح کی ریاست کی ترقی کی تاریخ میرے لئے بہت پیاری ہے . جب میں نے ماضی کے دور کی تاریخ پڑھی تو میرے لئے سب سے خوش گوار یہی پڑھانا تھا کہ خدا کی ریاست کا ترقی پانا . میرا دماغ کتاب کے وعدوں اور زمین پر مسیح کی ریاست کا مستقبل میں شاندار ترقی کی پیش گوئی کے ساتھ بہت خوش ہے .
ایڈورڈ نے وضاحت کے ساتھ بیداری کی شروعات کو ایسے بیان کیا “ خدائی اور مافوق الفطرت روشنی “ جس نے آسمان سے مغربی مسسچستٹس پر حملہ کیا . ان کی جماعت کے درمیان واقع ہونے والی بحالی ، بھلیوں میں سے پہلی بحالی تھی جو مینے سے لی کر جارجیا تک پهلی .نورتھمپتوں میں مشکل سے ہی کوئی بندہ ہوگا جس پر بحالی کا اثر نہ ہوا ہو . یہ خبر آس پاس کے دیہات میں بہت جلدی پھیل دی تھی . جو لوگ اس ظہور شے کی انکوائری کرنے ایڈورڈ کے چرچ آے ، ان میں سے بہت سے واپس چلے گئے اور بحالی جلد ہی پورے ملک کے سنڈرلینڈ کے علاقوں میں ڈیرفیلڈ ، ہٹفییلڈ ، لانگ میڈو ، سپرنگ فیلڈ میں پھیل گئی .
بیداری کی شروعات صرف اور صرف مذہبوں میں ہی نہیں واقع ہوئی لیکن ایڈورڈ کے مطابق “ علاقے کے بدترین لوگ بھی اپنی روح کے فکر کے ساتھ اچانک قبضہ میں لگ رہے تھے .” اگلے سات سالوں میں بیداری نے کالونیوں پر قبضہ کر لیا تھا . اس وقت کے چرچ کے ریکارڈ بھی یہ اشارہ کرتے ہیں کہ تقریباً ١/٣ امریکا کالونی کی آبادی نے نجات کا تجربہ کیا . بیداری کی شدت نے ایڈورڈ کو حیران کر دیا کہ مسیح کی ہزار سالہ زمین پر اطہار نہیں رہی تھی . اگر اور بیس سال مسلسل بیداری کے گزر گئے ، تو ایڈورڈ نے اندازہ لگایا کہ ، یہاں پر کوئی بھی نہیں بچے گا .
اوقیانوس کے پر ناپسندیدہ حالات نے جان ویسلے اور گیورگے وہیٹفیلڈ کی بحالی کی کوششوں کا ایک تخت مقرر کر دیا ہے . پریتانس نے امریکا پر اپنا نشان چوڑ دیا لیکن انگلستان میں پریتانس کو شہنشائی کی بحالی کے ساتھ مقرہ کر دیا گیا تھا . جیمز دوئم نے مشتعل طور پر بچے ہوۓ پریتانس پر ظلم کیا اور شدید جرمانے کے تحت انہیں تبلیغ کرنے سے منع کیا گیا تھا . غریب لوگ بغیر کچھ بولے غمگین تھے اور اس پھندے نے لوگوں کو ظالم اور بےرحم بنا دیا تھا . جیلیں ناقابل تصور خواب کی طرح تھیں . ماؤں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ گندے خانے کو صف کر کے بچوں کو دیتی تھیں تا کہ وہ بھوکے نہ رہیں . ١٧٣٠ کے بعد انگلستان میں زندگی اخلاقی طور پر بدعنوان تھی اور روحانی طور پر بہت ہی معذور تھی .
اس دنیا میں جان ویسلے نے ١٧٠٣ میں مذہبی والدین کے گھر پیدا ہوا . ١٧٠٩ اس ( پادری) کا مکان جل گیا جس وقت جان اپر کے کمرے میں سو رہا تھا . اس بچاؤ کے دوران جان اپر کی منزل سے اپنے باپ کی بھوں میں چھلانگ لگانے سے بہک گیا تھا کچھ ہی لمحوں میں عمارت گر گیی . ویسلے کی ماں سوسنا کو یقین ہو گیا تھا کہ اس کے بیٹے کی روح خدا کے کچھ عظیم مقصد کو پورا کرنے کے لئے یہاں سے چل بسی ہے . ویسلے کی بچپن سے ہی پادریوں کی تربیت ہوئی تھی اور پھر اس نے آکسفورڈ میں داخلہ لیا .
١٧٣٦ میں جے.ویسلے اس امید کے ساتھ جارجیا گیا کہ وہ انڈینز کو مسیحت میں تبدیل ہوتا دیکھے . دو سال کی مایوس ناکامی کے بعد وہ جب سمندری سفر سے انگلستان جا رہا تھا تو وون زنزندرف کے شاگردوں سے ملا . موروینس نے “بہت زیادہ سنجیدگی” کے مظاہرہ کیا اور موسم سرما کے طوفاں میں پر سکون تھے جو جہاز کو تھپیڑے مار رہا تھا جب کہ ویسلے کو اپنی زندگی کے لئے دار لگ رہا تھا . انگلستان کے واپسی کے سفر پر اسے اپنی نجات پر شک ہونے لگا .
میں انڈینز کو بدلنے امریکا گیا لیکن مجھے کون بدلے گا ؟! کون ، وہ کیا ہے جو میرے اس شرارت بھرے دل کو بدلے گا . میرا ایک صاف مذہب ہے . میں اچھی بات چیت کر سکتا ہوں ،نہیں ! اور اپنے اپ پر بھروسہ کر سکتا ہوں جبکہ کوئی خطرہ نزدیک نہیں ، لیکن موت کو میرا منہ دیکھنے دو اور میری روح کو مصیبت دیکھنےدو . نہ ہی میں کہ سکتا ہوں کہ “مارنا حاصل کرنا ہے” میں جو امریکا دوسروں کو بدلنے گیا تھا ، خود کبھی بھی خدا کی طرف نہ بدلہ “ لیکن میں سچی اور ہوشمند الفاظ بولتا ہوں .”
اگرچہ وہ پاکیزگی کی تبلیغ کرتا تھا .ویسلے اپنی ہی نجات کے بارے میں غیر یقینی تھا . ویسلے کو اپنی بےایمانی پر یقین تھا اور اکھڑ کر اس نے تبلیغ چھوڑنے کا فیصلہ کیا . “ اپ دوسروں کے ساتھ کیسے تبلیغ کر سکتے ہیں ، اگر آپکو خود پر یقین نہیں ؟” اس نے اپنے ایک پادری دوست پیٹر سے کہا کہ چاہے وہ سوچے یا نہ سوچے اسے تنلیغ کرنا چھوڑ دینی چاہے . پیٹر نے جواب دیا “ہرگز نہیں “ ویسلے نے پھر پوچھا “ لیکن میں کیا تبلیغ کر سکتا ہوں “ ؟ پیٹر نے پھر اسے ایک مشوره دیا جو کہ اس کی زندگی کو بدلے گا اور یورپ انگلستان کی منزل پر اثر انداز ہوگا “ ایمان کی تبلیغ کرو جب تک کہ تم میں نہ آ جائے اور پھر کیونکہ وہ تم میں ہوگا اور تم ایمان کی تبلیغ کرو گے “.
دو مہینے بعد ویسلے نہ چاہتے ہوۓ بھی الدرسگاتے-سٹریٹ کے معاشرے میں چلا گیا ، جہاں پر کوئی رومیوں پر لوتھر کی تمہید پڑھ رہا تھا .
تقریباً پونے نو بجے کے بعد ، جب وہ مسیح پر ایمان لانے سے خدا کا دل میں کم کرنے کو بیان کرتا تھا ، میں نے محسوس کیا کہ میرا دل عجیب طریقے سے گرم ہو گیا ہے . میں نے محسوس کیا کہ میں نے مسیح پر بھروسہ کیا ، مسیح اکیلا ہی نجات کے لئے ہے اور مجھے یہ یقین دہانی کرائی گیی کہ اس نے اپنے سرے ہمارے سارے گناہ اپنے سر لے لیا حالنکہ میرے بھی اور مجھے گناہ اور موت کے قانون سے بچایا اور یہاں پر میں نے اپنی پہلی اور اب کی حلے میں فرق پایا میں اپنی پوری طاقت اور شان سے جدوجہد کر رہا تھا لیکن تب میں نے شاید کبھی فتح نہ پائی ہو لیکن اب میں ہر بار فتح پا رہا تھا .
جلد ہی ویسلے کھلے القوں میں ہزاروں لگوں سے تبلیغ کرنے لگا جو کبھی بھی چرچ کی عمارت میں کبھی نہیں گئے تھے . ویسلے ایک عظیم رسول کی طرح تبلیغ کرتے اور سننے والوں کے دلوں میں ایمان کی بنیاد قائم کر دیتا. پہلے امریکا میں وہ ایک بھی بندے کے دل کو بدل نہ سکا لیکن اب وہ ہزاروں دلوں کو بدلتا تھا .
جارج وہیٹفیلڈ ، ویسلے کا ایک ساتھی ، بھی چند سال پہلےبلکل ایسی ہی روحانی مشکلات میں تھا . . لیکن جارج کا پس منظر مختلیف تھا . وہ ایک بہت ہی برے گھر میں پیدا ہوا ، اس کے والدین شراب کا ہوٹل چلاتے تھے جہاں میز کے ارد گرد بڑے بڑے ڈاکو سازشیں تیار کرتے تھے . یہاں پر وہیٹفیلڈ نے ایک واضح تصور اور ایک مظہر آواز پیدا کی جیسا کہ وہ شراب خانے کے مہمانوں کی نقل کرتا تھا اور ان پر غور کرتا تھا .
خدا کے فضل سے وہیٹفیلڈ کو ١٧ سال کی امر میں آکسفورڈ جانے کا موقعہ ملا . وہیٹفیلڈ نے اپنی زندگی کا دوبارہ اندازہ لگانا شروع کیا اور چارلز ویسلے کو ملا جس نے اسے “ پاک کلب “ انے کی دعوت دی .وہیٹفیلڈ کو اپنے جرم کا بہت زیادہ احساس ہوا اور ایک اچھا انسان بنے کے لئے کئی کوششیں کیں . اس نے اپنے آپکو ایک سخت نظم و ضبط میں ڈھالا جس نے اس کو تقریبن پاگل کر دیا تھا پھر خدا کا فضل دریافت کرنے کے بعد ، وہیٹفیلڈ نے ایک پادری کے طور پر اپنا پہلا وعظ دیا .، نتائج ؟.
میں منبر پر آیا ، میں خاموشی کو چنتا نہ کہ بولنے کو . بعد میں جب میں نے آغاز کیا ، تاہم ، خدا کی روح نے مجھے آزادی دی اور کچھ دائر بعد ایک تیز آندھی کی طرح نیچے آئی اور سب کچھ اپنے ساتھ لے لیا . فوری طور پر پورا اجتماع گھبرا گیا اور ہر کونے سے رونے دھونے کی آوازیں آ رہی تھیں اور بہت سو کو ان کے دوستوں کی باہوں میں گرتے دیکھا .
اپنی پوری زندگی کے دوران ، وہیٹفیلڈ نے تقریباً انگلستان کے ہر علاقے ، سکاٹلینڈ ، ویلز کے ہر علاقے کا دورہ کیا ہوا تھا ، اوقیانوس سات دفعہ پر کیا ، بوسٹن کے شہروں میں تبلیغ کی ، نیو یارک ، فلدلفیہ اور مشرقی امریکا کے بہت سے دوسرے علاقوں میں اس کی زندگی آسمان کے پر رند دار درکشن کی طرح تھی ، “ ایک ہشاش بشاش اور چمکنے والی روشنی “ . شاندار اور ابھی تک مختصر ، اس نے نیو بری پورٹ میں وفات پائی مسسچستٹس ٥٦ سال کی نوجوان عمرمیں ، جب وہ بیماری میں تبلیغ کرتا ہوا واپس اپنے چرچ میں آیا جو بستر پر جانے سے پہلے جب کچھ مہمان اس کی منت کر رہے تھے کہ ان کے ساتھ کچھ دیر اور ٹھہرے تو وہ سیڑھیاں پر کچھ دیر روک گیا .وہیٹفیلڈ نے اپنا آخری وعظ سیڑھیاں پر دیا جب تک موم بتی سیڑھیاں سے سے بج کر گر نہ گئی . اس کے بعد وہیٹفیلڈ بستر پر لیتا اور ہمیشہ کے لئے سو گیا .
اگر موازانہ کیا جائے تو ویسلے ، وہیٹفیلڈ سے زیادہ نہ موافق حالات میں کم کرنے والا تھا . یہ نظریہ جبر پاک روح کی طرف سے ایک تحفہ تھا . وہ کئی اختلافات سے ہمت نہ ہارا اور کئی گرجہ گھروں میں تبلیغ کرنے پر پابندی لگا دی گی تھی . ایک دفعہ اپوارت میں اپنے باپ کے چرچ میں اس نے ان بدقسمت حالات کا اچھی طرح سے سامنا کیا اور وہ چرچ کے باہر اپنے باپ کے سنگ مزار پر کھڑا ہو گیا تھا اور اسے ہی اپنا منبر بنا لیا تھا . ایک بہت بڑی بھیڑ اس کے وعظ سننے کے لئے جمح ہو گی تھی اور اکھڑ میں اس کے باپ کے چرچ کا سبق پیرش بدل چکا تھا ، وہ بہت ہی آرام سے ان لوگوں کا سامنا کرنے کے قابل تھا جو لوگ اس پر پتھراؤ کرنا چاہتے تھے اور اسے مارنا چاہتے تھے . تاہم ، بعد میں وہ اپنی زندگی میں بہت ہی مقبول ہو گیا تھا . ٨٨ کی عمر میں مرنے سے چند مہینے پہلے اس نے پارلیمنٹ کے آگے تبلیغ کی اور کرتا رہا .
ویسلے کی زندگی لرزا دینے والی ہے . مورخین بتاتے ہیں کہ یہ جان ویسلے ہی تھا جس کے پیروکار تھے جنھوں نے اخلاقی توازن قائم رکھا کیا اور انگلستان کو اس خونی سانہ کی طرف بڑھنے سے روکا جو کچھ ہی فاصلے پر ١٧٨٩ کے فرانس انقلاب میں واقع ہوا تھا . اس نے اپنی زندگی کے آخر میں ٧٥٠ مبلغین کو تربیت دی اور اپنے طالب علم فرانسس کی وجہ سے ٣٥٠ کو امریکا میں تربیت دی . اس کی موت کے وقت انگلستان میں ٧٦٩٦٨ اور امریکا میں ٥٧٢٦١ پیروکار تھے . اس کی بھی چارلز نے ہزاروں گیت لکھا جو آج بھی معروف ہیں اور گئے جاتے ہیں۔
انیسویں صدی کے آخری حصہ میں جذبے کو قائم رکھتے ہوۓ پیروکاروں نے پاک روح کی طرف کا سفر جاری رکھا . ویسلے کے کام نے ١٨٠٠ کی ابتدا میں دوسری عظیم بیداری کے دوران امریکی چرچز کی الہیات کو نمایاں طور پر متاثر کیا .
١٧٧٠ کے ساتھ ہی ، امریکی انقلاب کے آغاز پر تیرہ کالونیوں بنیادی طور پر تبدیل ہو چکی تھیں . الگ الگ فرقوں سے ایمان رکھنے والوں نے ایک مشترکہ روحانی تجربہ ایک دوسرے کے ساتھ بانٹا . سب کو اندرونی روحانیت کا اتحاد محسوس ہوا جس نے بیرونی اتحاد کے لئے رہنمائی کی . یہ ایک عظیم بیداری تھی جو جوناتھن ایڈورڈ کے چرچ سے شروع ہی جس نے امریکا کو روحانی اور سیاسی طور پر آزادی دلانے کے لئے رہنمائی کی .
اس دور کے اہم سچ درجہ ذیل ہیں :
١. چرچ کو بحال کرنے کے مقررہ مقصد کے ساتھ اور بت پرست متحدہ کی نجات کے لئے متفقہ دُعا ئی جلسے .
٢. پختہ عقیدہ بشارت نجات ، قومی سطح پر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اور روحانی بیداری.
٣. مقدس قرار دینے والی پاک روح کا، ایمان رکھنے والوں کو گناہ پر فاتحانہ طور پر رہنے کے قابل بنانا۔
٤. روحانی خوشحالی اور آزادی کے معاشرے میں نیکی اور سرکاری آزادی کے لئے ترجمہ۔
جیسا کہ انیسویں صدی کی تمام مختلف تحاریک احیاء کو ایک سرنامے کے تحت ایک ساتھ چلانا مناسب نھیں ھو سکتا، اس لیے بیداریء عظیم دوم کو احیاء کا ایک سلسلہ سمجھا جا سکتا ھے جن کا آغاز 1790 صدی عیسوی کے آخر میں کم آباد شمالی سرحدی ریاستوں میں ھوا اور یہ 1857 صدی عیسوی والی احیاء عظیم تک پھہل گیٔں، اور اس صدی عیسوی کے آخر میں پاک احیاء اوراحیاء پنتیکوست کے ساتھہ اختتام پذیر ھویٔیں جو کہ گذشتہ اصلاحات کے ابھرتے سلسلے پہ مبنی تھیں۔
اگرچہ بیداریء عظیم اول معدوم ھو رھی تھی، تاھم احیاء کے بیج پھر سے بویٔے جا رھے تھے۔ نیو برو پورٹ، مساکسیٹس میں جارج وایٔیٹ فیلڈ کی موت پر، انگلینڈ میں جان ویسلے کے کٹر اصولی معتقدوں نے امریکہ کی طرف مبلغ بھیجے۔ 1700 صدی عیسوی کے احیاء دیہات اور مشرقی ساحل کے شہروں میں اکٹھے ھویٔے، مگر بیداریء عظیم دوم کے کام کا آغاز کم آبادی والے محاذ پر ھوا۔ اس دور کے اھم شخصیات میں کٹر اصولی حلقہ کے راکبین فرانس اسبری اور پیٹر کارٹ رایٔیٹ ھیں۔
1801 صدی عیسوی کے اگست میں، احیاء کین رج مجلس ھویٔی۔ یہ چھہ دنوں پہ مشتمل ایک مجلس تھی جس میں ۲۰ ھزار لوگ شریک ھویٔے۔ جیسا کہ یہ نشست کم آباد محاذ پہ ھویٔی تھی، اس لیے یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ از سر نو قبولیت کرنے والے ھزاروں لوگوں میں ایک نوجوان زندیق جیمز بی فنلے تھا جس نے اپنی سرگزشت لکھی:
وہ شور نیاگرا کے شور جیسا تھا۔ انسانوں کے وسیع سمندر میں ایسے ھلچل مچی ھویٔی تھی کہ جیسے طوفان آیا ھو۔ میں نے سات خدمتگاروں کی گنتی کی، سبھی لوگ منبروں پہ، دوسرے لوگ ویگنوں پہ ایک دوسرے کہ خلاف بول رھے تھے ، اور ایک شخص ایک گرتے ھویٔے درخت پہ کھڑا ھوکے ایسا کر رھا تھا۔۔۔۔ کچھہ لوگ گا رھے تھے، کچھہ لوگ دعایٔیں مانگ رھے تھے، کچھہ لوگ ترحم آمیز ترین لہجوں میں رحم کے لیے پکار رھے تھے، جبکہ کچھہ لوگ شور و غل مچا رھے تھے۔ یہ مناظر دیکھہ کر، مجھے ایک عجیب سا احساس ھوا جو کہ مجھے پہلے کبھی نہیں ھوا تھا۔ میرا دل شدت سے دھڑکنے لگا، میرے گھٹنے کانپنے لگے، میرے ھونٹ تھرتھرانے لگے، اور مجھے ایسا لگا جیسے میں زمیں پہ گر جایٔوں گا۔ ایسا لگا جیسے وھاں پہ جمع اذھان میں ایک مافوق الفطرت قوت سما گیٔی ھو۔۔۔۔ میں نے لکڑی کے ایک چوکھٹے کی طرف قدم بڑھایا جہاں سے میں انسانوں کے ،موجزن سمندر کا بہتر نظارا کر سکتا تھا۔ میرے ذھن میں جو منظر ابھرا وہ ناقابل بیان تھا۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ کم از کم پانچ سو لوگوں کا صفایا ایک لمحے میں اس طرح ھوگیا کہ جیسے ان پر ھزاروں بندوقوں سے بوچھاڑ کی گیٔی ھو اور اس کے فورا بعد فلک شگاف چیخ و پکار شروع ھوگیٔی۔
یہ بیداری عظیم دور کا آغاز تھا۔ امریکا کی ابتدایٔی شمالی تحریک کا خاصہ سچے مسیحی تھے۔ اس عرصے کے دوران، امریکا کے عقیدہ احیاء پہ جو شخصیت چھانیٔی ھویٔی تھی وہ تھا چارلس جی فنے۔ وہ ایک نوجوان وکیل تھا، اپنے قانونی مطالعے کے حصے کے طور پر یوحنا عارف کے مکاشفہ کو پڑھنے کے بعد، وہ گنہگار ٹھہرا۔ فنے کی نبوت کا آغاز اس تجربے سے ھوا:
مجھے کویٔی امید نہ تھی، میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے لیے وھاں ایسی کویٔی چیز ھوگی، مجھے یاد ھی نہیں تھا کہ دنیا میں کسی شخص نے مجھہ سے ایسا کویٔی ذکر کیا ھو، مجھہ پہ روح قدس کا نزول کچھہ اس طرح سے ھوا کہ وہ میرے جسم و جان میں سرایت کرتی لگی۔ میں اس اظہار کو ایک برقی رو کی طرح محسوس کرسکا جو مجھہ میں سماتی گیٔی۔ یقینا وہ سیال محبت کی لہروں کی مانند آتی ھویٔی لگی، کیونکہ میں اس کو کسی دوسرے انداز میں بیان نہیں کرسکا۔ وہ خدا کے تنفس کی طرح لگی۔ میں اچھی طرح یاد کر سکتا ھوں کہ وہ مجھے بادکش لگی، بڑے پروں کی طرح۔ میرا دل جس انوکھی محبت سے پر ھوگیا، اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
میں مسرت اور محبت کے مارے رو پڑا؛ اور میں نہیں جانتا لیکن مجھے یہ کہنا چاھیے کہ میں نے اپنے دل کی ناقابل بیاں باتیں حقیقتا کہہ ڈالیں۔ یہ لہریں یکے بعد دیگرے مجھہ پہ چھانتی گیٔیں، یہاں تک کہ میں پکار اٹھا: اگر ان لہروں کا غلبہ مجھہ پہ چھاتا گیا تو میں مر جایٔوں گا۔ اگر چہ مجھے موت کا خوف نہ تھا، تاھم میں نے کہا: اے خداوند! اب مجھہ سے سہا نہیں جاتا۔
فنے کی ابتدایٔی نبوت ریاست شمالی نیویارک میں قایٔم ھویٔی، یہ خطہ علاقے کی اکثر احیاء کی وجہ سے جلا ھوا ضلع جانا جاتا تھا۔ فنے کی تبلیغ کا نتیجہ بعض اوقات تمام شہر کے از سر نو ایماں لانا نکلتا تھا۔ فنے کے عقیدہ احیاء کا مرتکز سماجی اصلاح تھا۔ اس نے ھر سماجی برایٔی کی طرف انگلی اٹھایٔی اور اس بات پہ زور دیا کہ سماج کے ھر گناھہ کا قلع قمع کیا جاسکتا ھے چاھے وہ کسی بھی صورت میں کیوں نہ ھو۔ ۱۸۰۰ صدی عیسوی کی ھر سماجی اصلاحی تحریک کو فنے کی مجالس احیاء سے ملایا جا سکتا ھے۔
دعایٔیہ مجلس احیاء ۱۸۵۷ سے ۱۸۵۸ میں واقع ھویٔی، اور یہ بیداری عظیم دوم کا عروج تھا۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں، امریکا کی تقریبا 20 فی صد آبادی سلطنت خدا میں کھنچی چلی آیٔی۔ پھر ۱۸۶۱ صدی عیسوی میں، سماجی جنگ کی صورت میں قیامت آن پڑی۔ جبکہ نشت کے دونوں طرف، از سر نو ایمان لانے والے ھزاروں اتحادی اور حلیف فوجیوں نے احیاء کا عمل جاری رکھا۔
نیم صدی کے بعد دنیا کو ڈی ایل موڈی، ولیم اور کیتھرین بوتھہ، ھنڈسن ٹیلر، جارج میولر جیسے تجدید مذھب کے عظیم حامی اور چارلس ھوج اور بی بی وار فیلڈ جیسے عظیم ماھرین مذھب ملے۔ انہوں نے اور کافی دوسری شخصیتوں نے اس صدی کو روشن خیالی اور از حد تبلیغانہ سرگرمی کا دور بنانے میں مدد کی۔
1800 صدی عیسوی کے آخر میں، انگلینڈ اور امریکہ میں پاک احیاء کا اصرار ذاتی اور سماجی پاکبازی پہ رھا۔ ایک عقیدہ تقدیس کی نشونما ھویٔی، اور اس بات پہ زور دیا گیا کہ پاک زندگی گذارنے کے لیے روح قدس کے سرایت کرنا لازمی ھے۔ یہ احیاء ، صدی کے آخر والی احیاء پنتیکوست کی فطری پیش رو تھیں۔
تجدید کے اس دور میں، مندرجہ ذیل توثیق کی بحالی ھویٔی:
۱۔ کلیسیا کی تاریخ میں، تبلیغانہ سرگرمیوں کی بڑی بے مثال تحریکیں رونما ھویٔیں۔
۲۔ ایک سرگرم کلیسا کے نتیجے کے طور پر سماجی تقدیس۔
۳۔ جماعت عظیم کی تکمیل کے لیے عالمگیر روشن خیالی اور ایمان۔
۴۔ کلیسیا میں اور تبلیغی میدان میں روحانی تحایٔف پر خاص زور۔
احیاء پنتیکوست
۲۰ صدی عیسوی کے آغاز پر، احیاء پنتیکوست کی تحریک اقوام عالم کی طرف مشعل احیاء لیکے چلی۔ آج دنیا کی عظیم ترین تبلیغانہ تحاریک پنتیکوست تحریک کا نتیجہ ھیں جس کا آغاز کیلیفورنیا، کنساس، ویلز، مشرقی یورپ، ھندستان، اور کوریا جیسی ممتاز جگہوں پہ روح قدس کے کم یاب ظہور کے تحایٔف کے طور پہ ھوا تھا۔
ازوسا اسٹریٹ میں ظہور پذیر م روح قدس کے تحایٔف کو روح قدس میں بپتسما کا ثبوت مانا جاتا ھے، ۱۹۰۶ ۔ ۱۹۰۸ میں لاس اینجلس میں احیاء کا منظر، پیشنگویٔیاں، زبانیں، اقوال دانش، اور معجزات سبھی ازوسا اسٹریٹ میں واقع ھویٔے، لیکن وھاں پر زبانوں میں بات کرنے کے تحفے پہ زور رھا۔
1960 اور 1970 والی دل آویز تحریک کے نتیجے میں روایتی کلیسیایٔوں کو روح قدس کے تحایٔف ملے۔ نو پنتیکوست اور دلآویزانہ تحاریک کو صدی کے چکر کا پنتییکوستانہ اظہار سمجھا جا سکتا ھے۔ اس طرح، 20 صدی عیسوی میں روح قدس کے تحرک کو روح قدس کے تحایٔف کی تجدید سمجھا جا سکتا ھے (جبکہ یہ تحرک گذشتہ کوتاھیوں کے قریب نہ تھا)
جیسا کہ ھم سال 2000 کی طرف بڑھہ رھے ھیں، ھم ایک اور بیداری کے نزدیک ھیں، اس بار توجہ کا مرکز جہاں ھے اور امکان ھے کہ خدا کے جلال، ایک فاتح کلیسیا، اور دنیا میں انجیل کی نشر و اشاعت کے حوالے سے وقت آخر کی بہت سی پیش بنیوں کی تکمیل ھوگی۔
احیاء اور روحانی بیداری کے بارے میں مفصل فہم قایٔم کرنے کے لیے، ھمیں فطرت، اور احیاء کے مقصد کے بارے میں اپنی ابتدایٔی تشریحات سے آغاز کرنا چاھیے ، اور پھر دور اصلاح سے ے ھر بحال شدہ تعلیم، اور توثیقی ضمیمے شامل کرنے چاھییں۔ ھمیں تاریخی کٹرپن کے خاکے سے آغاز کرنا چاھیے اور پھر اس بنیاد پہ ما بعد قوانین اور تعلیمات سے تعمیر کرنی چاھیے جن پہ ھر ایک متواتر احیاء میں زور دیا گیا ھے۔
احیاء کی وضاحت کرنے کے علاوہ، ھمیں روحانی بیداری کی ھمراھی ثمرات کی تشریحات بھی شامل کرنی چاھییں، یعنی اصلاح اور تجدید۔ آیٔیے، عقیدہ احیاء کے ان تین قوانین کی وضاحت کرتے ھیں:
احیاء: اس کی ابتدا کسی قوم میں توثیق خداوند کی بحالی سے ھوتی ھے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے از سر نو ایمان لانے والے ایک سماج پہ احیاء شدہ کلیسیا کے پیدا شدہ اثرات کو روحانی بیداری کہا جاتا ھے۔
اصلاح: اس کی تعریف کسی مخصوص معاشرے پر روحانی بیداری کے مقابل اثر کے طور پہ کی جاسکتی ھے۔ عظیم سماجی اصلاحات، اپنی ثقافت کے رکھوالے کے طور پر کام کرنے والی کسی احیاء شدہ کلیسیا کے تقدیسی قوت کے بدولت واقع ھوتی ھیں۔
بحالی: یہ اس وقت واقع ھوتی ھے جب ھر پیہم رو ء احیاء سے وہ عظیم سچایٔیاں بحال ھوتی ھیں جو کہ مرتدانہ دور کے ابتدایٔی کلیسیا کے عمومی تجربے کا حصہ تھیں لیکن دور وسطی میں کھو گیٔیں تھیں۔
ان تین عظیم قوتوں کے ایک ساتھہ مصروف عمل ھونے کی وجہ سے، ھم تاریخ میں ایک اھم مقام پر آ پہنچے ھیں۔ ھمیں یہ جاننے کی اشد ضرورت ھے کہ خدا نے ماضی میں کونسی تکمیلات کی ھیں، اور ھمیں حالات حاضرہ کی موجودہ حالت کا جایٔزہ لینا چاھیے۔ اس فہم کا مقصد ھمیں اپنے دور کی کلیسیا میں ایک ماحول قایٔم کرنا ھے جو احیاء کی ایک اور لہر کے لیے موافق ھو جس سے اقوام کی اصلاح ھو اور جماعت عظیم کی تکمیل ھو۔
جیسا کہ ھمیں وہ عمل سمجھہ میں آنے لگا ھے جس کے تحت ماضی میں خدا پہ کام کیا گیا تھا، اس لیے ھم مستقبل کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات پوچھہ سکیں گے اور کچھہ جوابات دے سکیں گے:
ھمارے دور میں، بیداری اول اور بیداری دوم کی شدت والی ایک اور تحریک احیاء کے واقع ھونے کے کیا امکانات ھیں؟
ھمیں پہلے یہ سمجھنا چاھیے کہ آج ساری دنیا میں احیاء جاری و ساری ھے۔ روحانی بیداری پیدا ھو چکی ھے جس کی بدولت گذشتہ عشرے میں لاکھوں لوگ سلطنت خدا میں داخل ھوچکے ھیں۔ افریکا، جنوبی امریکا، سابقہ سوویت یونین، عوامی جمہوریہ چین، بحرالکاحل کے جنوبی جزایٔر، اور جنوب ۔ مشرقی ایشیا میں احیاء کا دور دورہ ھے۔ اس عالمگیر بیداری کا بڑا حصہ نہ صرف مدمقابل ھے بلکہ صدیوں پہلے امریکہ میں جو کچھہ ھوا تھا اس سے تجاوز کر گیا ھے۔ جب ھم اپنی قوم اور یورپ کی طرف رخ کرتے ھیں تو ھمیں یہ دیکھنے میں آتا ھے کہ احیاء کے پیرایٔے میں، آج دنیا کی نام نہاد مسیحی اقوام متلون مزاج ھیں۔ تاھم، امریکہ کے گذشتہ احیاء کے دوران، تاریکی کے زمانے میں، نیٔی کرن اور امید نمودار ھوچکی ھے۔ اس طرح، ھم امریکہ میں بیداری عظیم سوم کی توقع کرسکتے ھیں جو کہ گذشتہ تمام تجربوں سے بڑھہ کر ھوگی۔